Fakhar Zaman Visit of Sindh

اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین جناب فخرزمان کا دورہ سندھ
( آغا نورمحمد پٹھان)
اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین جناب فخرزمان ۲ اکتوبر ۲۰۰۹ءکو صوبہ سندھ کے دورہ پر کراچی پہنچے ۔کراچی کے قائداعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچنے پر سندھ کے نامور ادیبوں نے ان کا استقبال کیا۔ معروف کالم نگار اور دانشور نذیر چنہ، ڈاکٹر محمد ذکی ، محترمہ مجیدہ باریجو اور اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغانور محمدپٹھان نے چیئرمین اکادمی اور ڈاکٹر فاطمہ حسین پروفیسر دہلی یونیورسٹی انڈیا کو پھولوں کے گل دستے پیش کئے۔
اسی دن بذریعہ کار سپرہائی وے کے راستے جناب فخرزمان صاحب مرزا قلیچ بیگ انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کےلئے سندھ یونیورسٹی جامشورو پہنچے ۔اس کانفرنس میں شرکت کے لئے ایران اور انڈیا سے بھی اسکالر ز کو دعوت دی گئی تھی، جن میں انڈیا سے دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر فاطمہ حسن اور ایران سے ڈاکٹر مہدی توسلیاور ڈاکٹر تسبیحی بھی پہنچے تھے۔اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور برطانیہ سے مرزا قلیچ بیگ کے خاندان کی خواتین اس کانفرنس میں شرکت کے لئے تشریف آور ہوئیں ۔
اس کانفرنس کا اہتمام سندھ یونیورسٹی میں قائم مرزا قلیچ بیگ چیئر نے کیا تھا جس کے ڈائریکٹر پروفیسرڈاکٹر محمدقاسم بگھیوڈین فیکلٹی آف آرٹس ہیں ۔ و ہی اس کانفرنس کے چیئرمین بھی تھے۔ کانفرنس کے دعوت نامے میں صدر پاکستان محترم آصف علی زرداری کو مہمان خاص کے طور پر نام تحریر تھا، لیکن صدر صاحب تو اس میں سرکاری مصروفیات کے سبب تشریف نہ لاسکے، البتہ قومی اسمبلی کی اسپیکر محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، جو سندھ کے وزیرداخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی اہلیہ بھی ہیں ،وہ یہاں تشریف لائیں اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور مرزا قلیچ بیگ کے خانوادے سے ان کے خاندان کے اکثر معزز ین اس کانفرنس میں شریک تھے ،جن میں اعجاز علی بیگ مرزا، ان کی صاحبزادی ڈاکٹر فائزہ مرزااور مہرافروز حبیب (نواسی مرزا قلیچ بیگ) شامل ہیں۔ اس کانفرنس میں کراچی یونیورسٹی سے شعبہ فارسی کی پروفیسر ڈاکٹر فہیم تفہمیی ، پشاور اور لاہور سے بھی شریک ہوئے۔
کانفرنس کے پہلے اجلاس کی صدارت دھلی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کی پروفیسر ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کی جب کہ دوسرے اجلاس جس کی مہمان خصوصی محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا تھیں اس میں کلیدی خطاب جناب فخرزمان چئیرمین اکادمی ادبیات پاکستان جو اسلام آباد سے خاص طورپر اس کانفرنس میں شریک تھے ۔
اپنے کلیدی خطاب میں جناب فخرزمان نے کہاکہ مرزا قلیج بیگ سندھی ادب کے معمار تھے اور جدید سندھی ادب کے بانیوں میں ان کا شمار صف اول کے قلمکاروں میں ہوتا ہے ، ان کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ شمس العلماءمرزا قلیج بیگ کے حیات اور کارناموں پر اکادمی نے پاکستان کے ادب کے معمار کی حیثیت سے کتاب شائع کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میںہمارے ان عظیم ادبی معماروں کو اپنے صوبوںاور شہروں تک محدود رکھا تھا اور ڈکٹیٹروں نے ان کو ملک کے دیگر عوام سے دور رکھا ۔
انہوں نے اعلان کیا کہ انشاءاللہ آئندہ سال شاہ عبداللطیف بھٹائی اورسچل سرمست کے حوالے سے کانفرنسیں لاہور اور اسلام آباد میں منعقد کی جائیں گی۔ اور رحمان بابا، بلھے شاھ ، بابافریداور خواجہ غلام فرید کے حوالے سے سندھ میں کانفرنسوں کا انعقاد ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آجکل ہمارے سیاستدان اور دانشور صوبوں کے درمیاں نئے سوشل معاہدہ کی باتیں کرتے ہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ صوبوں کے درمیاں نئے ادبی معاہدہ کئے جائیں تاکہ ایک صوبے کے ادیب ، دانشور دوسرے صوبوں کے ادیبوں سے ملیں اور مکالمہ کی فضا پید اکی جائے۔ اس کانفرنس میں محترمہ سسئی پلیجو اور فہمیدہ مرزا نے بھی محترم فخرزمان کے اس موقف کو سراہا اور ادب کے ذریعے قومی یک جہتی کے اس پروگرام کی انہوں نے بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔
مرزا قلیج بیگ کانفرنس میں شرکت سے پہلے محترم فخرزمان اور ڈاکٹر فاطمہ حسین نے سندھی زبان کے سرتاج الشعراءحضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مرزا پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑھانے کے بعد فاتحہ پڑھی اور حضرت شاہ عبداللطیف کے نوادارت ان کے قیام گاہ اور گنج لطیف کی زیارت کی اس موقعے پر انہوں نے کہاکہ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو پاکستان کی دیگر زبانوں میں ترجمہ شائع کرنے کا اکادمی اہتمام کرے گی۔
مورخہ ۴ اکتوبر ۲۰۰۹ کو جناب فخرزمان اور ڈاکٹر فاطمہ حسین نے سندھ کے عظیم صوفی شاعر حضرت عثمان مرندی حضرت لعل شہباز قلندر کے رضہ مبارک پر حاضری دی جہاں انہوں نے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ پڑھی۔
سیوھن جو پاکستان کا قدیم ترین شہر ہے اس کے ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ڈی ڈی او جامشورو محترم ارباب عطاءاللہ نے چئیرمین اکادمی ادبیات پاکستان کا استقبال کیا اور سیوھن شہر میں ان کے لئے نہایت پر تکلف ظہرانہ کا اہتمام کیا۔
۴اکتوبر ۹۰۰۲ کو چئیرمین صاحب ڈاکٹر فاطمہ حسین کے ہمراہ سندھ کے قدیم اور دنیا کے طویل ترین قلعہ رنی کوٹ کا بھی مطالعاتی دورہ کیا اور رنی کوٹ جسے ہم دیوار پاکستان بھی کہتے ہیں وہاں میری کوٹ کوٹ میں جامشورو کی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ان کو بھر استقبالیہ دیا کیا گیااور رنی کوٹ کے قلعے کے متعلق انہیں بریفنگ دی گئی۔
قلعہ کے دورہ کے بعد جناب فخرزمان نے کہا کہ یہ قلعہ پاکستان کے لئے باعث افتخار ہے اور اس کی اہمیت کو موئن جو دڑو اور دیگر آثار کی طرح عالمی سطح پر روشناس کرانے کی ضرورت ہے اور ٹوئرازم کے حوالے سے بھی یہاں ریسٹ ہاﺅ س اور ایک عالمی معیار کے ہوٹل کے قیام کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کاربان ڈیٹنگ کے ذریعے اس قلعے کی قدامت اور تاریخ پر مستند تحقیق کی ضرورت پر انہوں نے زور دیا۔
۵اکتوبر۲۰۰۹ کو بزٹیک یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں ڈاکٹر فاطمہ حسین کے خصوصی لیکچر بعنوان ” تصوف اور امن عالمی تناظر میں“ کا اہتمام کیا جس کے مہمان خصوصی چئیرمین اکادمی ادبیا ت پاکستان جناب فخرزمان نے اپنے خطاب میں امن عالم کے حوالے سے صوفیائے کرام کی تعلیمات پر عمل کرنے پر زور دیا ۔ یہاں بھی انہوں نے کہا کہ برصغیر کے اندر بابا بلھے شاہ ، شاھ عبداللطیف بھٹائی ، سچل سرمست ، رحمان بابا، حضرت لعل شہباز قلندرنے انسانی بھائی چارہ اور محبت کا پیغام دیا ہے ،جو صدیوں کے گذر جانے کے بعد بھی لاکھوں لوگ آج بھی ان کے پیروکار اور عقیدت سے سرشار ہیں۔
لہذا آج بھی اسی پیغام کو آگے بڑھانے سے انتہاپسندی اور نفرتوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر فاطمہ حسین نے اس موقعے پر امن عالم اور تصوف کے حوالے سے اپنا خصوصی لیکچر دیتے ہوئے کہاکہ تصوف انسان کی نفسانی خواہشات اورایگو ازم کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہ کام ہمارے صوفی بزرگوں نے ماضی میں کرکے دکھا یا ہے اور اس وقت تمام ھندو اور مسلمان امن سے رہتے تھے ۔
۶اکتومبر۲۰۰۹ کو ڈاکٹر فاطمہ حسین اور فخرزمان کے اعزاز میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے میڈیا ڈائریکٹر اور چلڈرین فاونڈیشن کے صدر ساجد علی حسین ساجد کی طرف سے باغ ابن قاسم میں جہانگیر کوٹھاری پر ایک عشائیہ کا اہتمام کیا گیا ہے اور ہزاروں سال قدیم مندر مہادیو ٹیمیل کو دورہ کیا یہ مندر سمندر کے اندر زیر زمیں ایک غار میں واقع ہے اور اس کی حیثیت بھی بلوچستان میں ھنگلاج کی نانی دیوی کے مندر کی طرح قدیم ہے ۔
وادی ءسندھ کے اس قدیم ھندوں کی عبادت گاہ میں جناب فخرزمان اور ڈاکٹر فاطمہ حسین کچھ دیر رہے اور مندر کے اثار دیکھے مندرکے منتطمین اور پروہتوں نے ان کو قدیم کتابوں کے سندھی اور اردو ایڈیشن پھولوںاور پھلوں کے تحائف دئے اور ڈاکٹر فاطمہ حسین کو ھندوں کے مذھبی کتاب گیتا کا منظوم اردو ترجمہ پیش کیا۔
۷اکتومبر۲۰۰۹ کو محترم فخرزمان اور ڈاکٹر فاطمہ حسین کراچی کی قدیم اور انتہائی خوبصورت عمارت مہتا پئلئس کا دورہ کیا جسے محکمہ ثقافت حکومت سندھ نے ایک ٹرسٹ کا درجہ دے دیا ہے۔
اس ٹرسٹ کے چئیرمین سر عبداللہ ھارون کے پوتے اور روزنامہ ڈان کے مالک حمید ھارون ہیں اور حمید آخوندسابق سیکریٹری کلچر حکومت سندھ اس کے سیکریٹری میں آج کل اس عمارت میں پاکستان بھر کے صوفی بزرگوں کے مقبروں اور مزاروں پر استعمال کی گئی کاشی کی کہانی پر نمائش چل رہی ہے جسے ایک سال سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے ۔ اس نمائش میں سیوھن شریف ، کامارو شریف، میرپور خاص، تھرپار کر، ملتان اور اُچ شریف کے مزاروں اور قیمتی پتھروں اور تاریخی کتبوں کی نمائش جاری ہے مہتاپئلئس کے لال بخش بروھی نے معزز مہمانوں کو اس نمائش اور ٹرسٹ کے متعلق بریفنگ دی ۔