News Letter

اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588
Cell: 0300-2161624
palkarachi@hotmail.com
پریس ریلیز
محمد یامین نے جوش کی رباعبات کو انگریزی میں منتقل کرکے مشرقی شاعرانہ روایات سے مغرب کو روشناس کرایا ہے جوش کی رباعیات کا کینوس وسیع اور فکری اور فنی زواویوں سے آراستہ ہے، یہ بات ممتاز دانشور اور نقاد پروفیسرڈاکٹر محمد علی صدیقی نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام پروگرام ”ادبی اوطاق ©“میں رباعیات جوش ملیح آبادی قطرہ و قلزم کے انگریزی ترجمہ A drop and Ocean کی تقریب رونمائی میں صدارتی خطاب میں کہی۔انہوں نے کہاکہ اچھا ترجمہ ایک حدتک اس زبان ہی کا ادب شمار ہوتا ہے جس میں وہ ترجمہ کیا جاتا ہے۔ لہذا یہ تراجم انگریزی زبان ہی کی ہی مختصر نظمیں ہیں اور ان کا ترجمہ صاف ، سادہ ہونے کے ساتھ رباعی کے تین مصرعوں میں ردیف کی پابندی کا خیال بھی رکھا گیا ہے جو انگریزی زبان میں ایک مشکل کام تھا۔ ممتاز کالم نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشینے کہاکہ محمد یامین نے ان تراجم میں جوش صاحب کی اصل فکر اور روح اور شعری احساس کو برقرار رکھا ہے اور اہل مغرب سے ان کا تعارف حافظ و خیام کے بعد ان رباعیات کے ذریعہ کرایا ہے جو بیسویں صدی کے اس حافظ و خیام کو خراج عقیدت ہے۔معروف شاعر عشرت رومانی نے کہا کہ مترجم نے جوش کا انگریزی ترجمہ کرکے ان کی شاعرانہ سوچ اہل مغرب تک پہنچا کر ایک ایم ادبی فریضہ سرانجام دیا ہے جس کے لئے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ معروف نقاد نذیر احمد چنہ نے کہاکہ مترجم نے اپنے ترجمہ میں انگریزی صنف Quatrainsکو استعمال کیا ہے جو رباعیات کا بدل ہے، ان کا شاعرانہ انداز بلندی پر ہے جس میں ایجاز و اختصار کے باوجود خوبصورت تشبیہات اور استعاروں سے بھرپور ہے ، اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نور محمد پٹھان نے کہاکہ جوش پاکستانی ادب کے معماروں میں شامل ہیں لہذا ہمارے یہاں ان کا مقام بھارتی اعزاز پدم بھوشن سے بہت بلند ہے اور حال ہی میں حکومت سندھ نے جوش ایوارڈ جاری کرکے ایک قدم آگے بڑھایا ہے جبکہ اس سلسلے میں ہمیں قومی سطح پر اور پیش قدمی کی ضرورت ہے۔ معروف شاعر مترجم محمد یامین نے کہاکہ جوش جیسے قادر الکلام شاعرکی رباعیات کا انگریزی ترجمہ ایک انتہائی مشکل کام تھا جس کے لکھنے سے لہو کوبدن سے نچوڑنا پڑا کیونکہ ان کی شاعری میں استعمال شدہ تشبیہات اور استعاروں کے استعمال میں اسکا ثانی نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے یہ کام اپنے دوست آئرش شاعر پیٹر پیگنل Peter Pegnalکی تحریک پر شروع کیا جس میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی دی اس موقعے پرعبدالجبار اثر، حیدر بخش ھکڑو، راشد کنڈی، سراج المنیر تسنیم ، صالح کوثر، تشنہ بریلوی نے منظوم اظہار خیال کیا۔
مخلص

محتر م جناب اختر سعیدی آغا نور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر


اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588
Cell: 0300-2161624
palkarachi@hotmail.com
پریس ریلیز
اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین افتخار عارف نے کہا کہ عہد حاضر کے مقبول ترین شاعر احمد فراز کی رحلت پوری اردو دنیا کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ وہ عہد حاضر کے ممتاز و منفرد غزل گو تھے اور مزاحمتی شاعر کے طور پر ساری دنیا میں اردو ادب کی شناخت سمجھے جاتے تھے ۔ اس موقع پر افتخار عارف چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان اور اظہر الدین ملک ڈائریکٹر جنرل اکادمی ادبیات پاکستان نے گہرے رنج و غم کا اظہارکرتے ہوئے لواحقین کے لیے صبر جمیل اور مرحوم کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی ہے ۔ احمد فراز کے پندرہ شعری مجموعے متعدد بار شائع ہوئے۔ برصغیر کے ممتاز گلوکار وں نے ان کا کلام ریڈیو ،ٹی وی اور فلموں کیلئے گایا ۔ مختلف زبانوں میں ان کی شاعری کے تراجم شائع ہوئے۔ ساری دنیا میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی مشاعروں میں ان کی شرکت کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی ۔ انہیں دنیا بھر میں متعد د ادبی اعزازات سے نوازا گیا ۔ اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے انہیں ملک کا سب سے بڑا ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ دیا گیا ۔ علاوہ ازیں ان کے متعدد شعری مجموعوں کو سال بھر میں شائع ہونے والی کتابوں کے مقابلے میںبہترین کتاب قرار پانے پر علامہ اقبال قومی ادبی ایوارڈ بھی دیئے گئے عہد آمریت میں ایک طویل عرصہ انہوں نے جلاوطنی میں گذارا اور بعد میں بھی و ہ ملک میں جمہوریت کے قیام کی جدوجہد میں فعال کردار ادا کرتے رہے ۔ واضح رہے کہ وہ اکادمی ادبیات پاکستان اور نیشنل بک فاو¿نڈیشن کے سربراہ کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دیتے رہے۔
اس موقع پر اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹرآغا نور محمد پٹھان نے اپنے دفتر میں ایک تعزیتی اجلاس میں کہا کہ پاکستان ایک بین الاقوامی شاعر سے محروم ہوا ہے اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس میں جگہہ دیے اوران کی لواحقین کو صبر کی توفیق عطافرمائیں۔( آمین ثم آمین)
مخلص

محتر م جناب نیوز ایڈیٹر آغا نور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر





اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588
Cell: 0300-2161624
palkarachi@hotmail.com
پریس ریلیز
احمد فراز کی شاعری میں رومانی ، جمالیاتی اور مزاحمتی شاعری کا حسین امتزاج ملتا ہے جس نے فراز کو اپنے عہد کا سب سے زیادہ مقبول اور معتبر شاعر بنادیا یہ بات ممتاز دانشور اور ایڈوائزر گورنر سندھ خان یوسف جمال نے بحیثیت صدر اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام احمد فراز کی یادمیں منعقد ادبی ریفرنس میں کہی انہوںنے کہا کہ فراز اپنی شاعری کی وجہہ سے زندہ رہیں گے۔ ممتاز افسانہ نگار اور شاعر اسد محمد خان نے کہا کہ احمد فراز نے اردو غزل کے حوالے سے عالمی شہرت پائی اور انہوں نے غزل میںاپنا ایک اسلوب بنالیا تھا۔ ممتاز براڈ کاسٹر اور شاعر اقبال اعظم فریدی نے کہا کہ احمد فراز اپنی شخصیت اور شاعری کی وجہہ سے ہر دل عزیزی اور مقبولیت کی بلندیوں پر فائز تھے۔ فراز نے رومانیت ، سیاست اور سماجی شعور کی ایک لڑی میں پروکر انسانی احساسات کی بھرپور ترجمانی کی۔ سندھی زبان کے ممتاز شاعر اور نقاد شمیشیرالحیدری نے کہا کہ فراز کی شاعری کا سندھی اہل قلم پر گہرے اثرات مرتب ہوئے وہ ایک باضمیر شاعر تھے اور حق و صداقت کی شمع کو شاعری کے ذریعے روشن رکھا وہ اپنی تعمیری سوچ سے اہل پاکستان کو جینے کا حوصلہ دیتے رہے۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے کہا احمد فراز ایک زندہ دل شاعر تھے وہ ریا کاری اور بے ضمیری کے خلاف مستقل آواز اٹھاتے رہے فراز کے ساتھ اردو شاعری کا ایک عہد ختم ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی تشبہیات اور توجیہات اور ترقی پسندی میں منفرد تھے۔اکادمی ادبیا ت پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ظہرالدین ملک نے کہا کہ احمد فراز ایک عہد ساز شاعر تھے اور اکادمی کو فخر ہے کہ وہ اس کے چیئرمین اورفاو¿نڈر ڈائریکٹر رہے۔ انہوں نے اکادمی ادبیا ت پاکستان کا کمال فن ایوارڈ بھی حاصل کیااکادمی نے چاروں صوبوں اور اسلام آباد میں ان کے لئے ادبی ریفرنس کا اہتمام کیا ہے۔ اس موقع پر ضیا ءخان ضیاء، سراج المنیر تسنیم ، تشنہ بریلوی، مجیب ظفر انوار حمیدمرحوم احمد فراز کو منظوم خراج تحسین پیش کیااور اکادمی ادبیات کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نور محمد پٹھان نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور راشد نور نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔


آغا نور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر



اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588
Cell: 0300-2161624
palkarachi@hotmail.com
پریس ریلیز
علامہ رشید ترابی اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے وہ متاثرکرنے کا ہنر جانتے تھے وہ بہت مستنداور معتبر مکاتب کی روایات کے ساتھ گفتگو سے اور ان کی مجالس کو سن کر سامعین روحانی جذبہ سے سرشار ہوجاتے تھے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین اور ممتاز شاعر افتخار عارف نے علامہ رشید ترابی کی یاد میں بھوجانی ھال کراچی میں ترابی صدی یادگاری لیکچر کے دوران کہیں۔ انہوں نے کہا کہ علامہ کی مجلسوں میں ہر مسلک اور ہر مذھب کے لوگ آتے تھے اور اس طرح آتے تھے کہ واپسی میں حُربن کر جاتے تھے۔ انہوں نے کہاکہ برصغیر میں تہذیب عذاداری کو انہوں نے ایک نیا اسلوب دیا جس میں کبھی تعصبات کا باب بند کردیا تھاعلم، دانش اور روح قرآن و سنت ان کی مجلسوںکی جان تھی ۔ ان کے طرز استدلال سے متاثر ہوئے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا ۔ ان کی مجلسِ اتحاد بین المسلمین کی عملی تصویریں ہوتی تھیں۔ اور ان کی مجلسِ حوضہ علمیہ تھیں جو خیر جاریہ کی روایت کو آگے بڑھارہی تھیں اور ان درس گاہ نما مجلسوں میں حضرت علامہ دور جدید کے تقاضاﺅں کے مطابق آگاہی دیتے تھے۔انہوں نے کہا کہ علامہ صاحب کو کتاب الٰھی سے شغف تھا ۳۲ برس تک مسلسل آیت بہ آیت قرآن کی تفسیر پیش کرتے رہے۔

مخلص

محتر م جناب نیوز ایڈیٹر آغا نور محمد پٹھان
ڈیلی ڈان کراچی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر







اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588
Cell: 0300-2161624
palkarachi@hotmail.com
پریس ریلیز
علامہ رشید ترابی اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے وہ متاثرکرنے کا ہنر جانتے تھے وہ بہت مستنداور معتبر مکاتب کی روایات کے ساتھ گفتگو سے اور ان کی مجالس کو سن کر سامعین روحانی جذبہ سے سرشار ہوجاتے تھے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین اور ممتاز شاعر افتخار عارف نے علامہ رشید ترابی کی یاد میں بھوجانی ھال کراچی میں ترابی صدی یادگاری لیکچر کے دوران کہیں۔ انہوں نے کہا کہ علامہ کی مجلسوں میں ہر مسلک اور ہر مذھب کے لوگ آتے تھے اور اس طرح آتے تھے کہ واپسی میں حُربن کر جاتے تھے۔ انہوں نے کہاکہ برصغیر میں تہذیب عذاداری کو انہوں نے ایک نیا اسلوب دیا جس میں کبھی تعصبات کا باب بند کردیا تھاعلم، دانش اور روح قرآن و سنت ان کی مجلسوںکی جان تھی ۔ ان کے طرز استدلال سے متاثر ہوئے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا ۔ ان کی مجلسِ اتحاد بین المسلمین کی عملی تصویریں ہوتی تھیں۔ اور ان کی مجلسِ حوضہ علمیہ تھیں جو خیر جاریہ کی روایت کو آگے بڑھارہی تھیں اور ان درس گاہ نما مجلسوں میں حضرت علامہ دور جدید کے تقاضاﺅں کے مطابق آگاہی دیتے تھے۔انہوں نے کہا کہ علامہ صاحب کو کتاب الٰھی سے شغف تھا ۳۲ برس تک مسلسل آیت بہ آیت قرآن کی تفسیر پیش کرتے رہے۔

مخلص

محتر م جناب خورشید احمر آغا نور محمد پٹھان
ڈیلی نیوز کراچی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر








اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588
Cell: 0300-2161624
palkarachi@hotmail.com
پریس ریلیز
علامہ رشید ترابی اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے وہ متاثرکرنے کا ہنر جانتے تھے وہ بہت مستنداور معتبر مکاتب کی روایات کے ساتھ گفتگو سے اور ان کی مجالس کو سن کر سامعین روحانی جذبہ سے سرشار ہوجاتے تھے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین اور ممتاز شاعر افتخار عارف نے علامہ رشید ترابی کی یاد میں بھوجانی ھال کراچی میں ترابی صدی یادگاری لیکچر کے دوران کہیں۔ انہوں نے کہا کہ علامہ کی مجلسوں میں ہر مسلک اور ہر مذھب کے لوگ آتے تھے اور اس طرح آتے تھے کہ واپسی میں حُربن کر جاتے تھے۔ انہوں نے کہاکہ برصغیر میں تہذیب عذاداری کو انہوں نے ایک نیا اسلوب دیا جس میں کبھی تعصبات کا باب بند کردیا تھاعلم، دانش اور روح قرآن و سنت ان کی مجلسوںکی جان تھی ۔ ان کے طرز استدلال سے متاثر ہوئے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا ۔ ان کی مجلسِ اتحاد بین المسلمین کی عملی تصویریں ہوتی تھیں۔ اور ان کی مجلسِ حوضہ علمیہ تھیں جو خیر جاریہ کی روایت کو آگے بڑھارہی تھیں اور ان درس گاہ نما مجلسوں میں حضرت علامہ دور جدید کے تقاضاﺅں کے مطابق آگاہی دیتے تھے۔انہوں نے کہا کہ علامہ صاحب کو کتاب الٰھی سے شغف تھا ۳۲ برس تک مسلسل آیت بہ آیت قرآن کی تفسیر پیش کرتے رہے۔

مخلص

محتر م جناب راشدنور آغا نور محمد پٹھان
روزنامہ نوائے وقت کراچی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر








اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588
Cell: 0300-2161624
palkarachi@hotmail.com
پریس ریلیز
علامہ رشید ترابی اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے وہ متاثرکرنے کا ہنر جانتے تھے وہ بہت مستنداور معتبر مکاتب کی روایات کے ساتھ گفتگو سے اور ان کی مجالس کو سن کر سامعین روحانی جذبہ سے سرشار ہوجاتے تھے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین اور ممتاز شاعر افتخار عارف نے علامہ رشید ترابی کی یاد میں بھوجانی ھال کراچی میں ترابی صدی یادگاری لیکچر کے دوران کہیں۔ انہوں نے کہا کہ علامہ کی مجلسوں میں ہر مسلک اور ہر مذھب کے لوگ آتے تھے اور اس طرح آتے تھے کہ واپسی میں حُربن کر جاتے تھے۔ انہوں نے کہاکہ برصغیر میں تہذیب عذاداری کو انہوں نے ایک نیا اسلوب دیا جس میں کبھی تعصبات کا باب بند کردیا تھاعلم، دانش اور روح قرآن و سنت ان کی مجلسوںکی جان تھی ۔ ان کے طرز استدلال سے متاثر ہوئے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا ۔ ان کی مجلسِ اتحاد بین المسلمین کی عملی تصویریں ہوتی تھیں۔ اور ان کی مجلسِ حوضہ علمیہ تھیں جو خیر جاریہ کی روایت کو آگے بڑھارہی تھیں اور ان درس گاہ نما مجلسوں میں حضرت علامہ دور جدید کے تقاضاﺅں کے مطابق آگاہی دیتے تھے۔انہوں نے کہا کہ علامہ صاحب کو کتاب الٰھی سے شغف تھا ۳۲ برس تک مسلسل آیت بہ آیت قرآن کی تفسیر پیش کرتے رہے۔

مخلص

محتر م جناب اختر سعیدی آغا نور محمد پٹھان
روزنامہ جنگ کراچی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر








اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588
Cell: 0300-2161624
palkarachi@hotmail.com
پریس ریلیز
علامہ رشید ترابی اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے وہ متاثرکرنے کا ہنر جانتے تھے وہ بہت مستنداور معتبر مکاتب کی روایات کے ساتھ گفتگو سے اور ان کی مجالس کو سن کر سامعین روحانی جذبہ سے سرشار ہوجاتے تھے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین اور ممتاز شاعر افتخار عارف نے علامہ رشید ترابی کی یاد میں بھوجانی ھال کراچی میں ترابی صدی یادگاری لیکچر کے دوران کہیں۔ انہوں نے کہا کہ علامہ کی مجلسوں میں ہر مسلک اور ہر مذھب کے لوگ آتے تھے اور اس طرح آتے تھے کہ واپسی میں حُربن کر جاتے تھے۔ انہوں نے کہاکہ برصغیر میں تہذیب عذاداری کو انہوں نے ایک نیا اسلوب دیا جس میں کبھی تعصبات کا باب بند کردیا تھاعلم، دانش اور روح قرآن و سنت ان کی مجلسوںکی جان تھی ۔ ان کے طرز استدلال سے متاثر ہوئے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا ۔ ان کی مجلسِ اتحاد بین المسلمین کی عملی تصویریں ہوتی تھیں۔ اور ان کی مجلسِ حوضہ علمیہ تھیں جو خیر جاریہ کی روایت کو آگے بڑھارہی تھیں اور ان درس گاہ نما مجلسوں میں حضرت علامہ دور جدید کے تقاضاﺅں کے مطابق آگاہی دیتے تھے۔انہوں نے کہا کہ علامہ صاحب کو کتاب الٰھی سے شغف تھا ۳۲ برس تک مسلسل آیت بہ آیت قرآن کی تفسیر پیش کرتے رہے۔

مخلص

محتر م جناب خرم سہیل آغا نور محمد پٹھان
روزنامہ آج کل کراچی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر








اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588
Cell: 0300-2161624
palkarachi@hotmail.com
پریس ریلیز
ابوالفرح ہمایوں کی کتاب ” خوب سے خوب تر“ کی رسم اجراءکی تقریب
ابوالفرح ہمایوں کی تحریر میں ظرافت اور شرافت اور سرایت کر جانے والی آنچ ملتی ہے ، بات سے بات پیدا کرنے کا فن ہمایوں صاحب کوخوب آتا ہے ، یہ بات ممتاز مزاح نگار اور کالم نویس اطہر شاہ خان جیدی نے اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیراہتمام ممتاز مزاح نگار ابوالفرح ہمایوں کی کتاب” خوب سے خوب تر“ کی رسم اجراءکی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی تحریر میںایک صداقت اور خلوص کے ساتھ بات کہنے کا سلیقہ بھی ہے اس لئے ان کی تحریر کو پورا پڑھے بغیر چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا ۔ مہمان خصوصی اور ممتاز مزاح نگار ڈاکٹر محمد محسن نے کہا کہ ابوالفرح کے مزاحیہ مضامین مختصر لیکن خوبصورت ہوتے ہیں اس لئے پڑھنے والا بور نہیں ہوتا انہوں نے کہا کہ مختصر نویسی مشکل کام ہے لیکن انہیں یہ ہنر آتا ہے۔ممتاز نقاد اور افسانہ نگار علی حیدر ملک نے کہا کہ ابوالفرح کے مضامین بیانیہ نوعیت کے ہیں اس لحاظ سے وہ پطرس بخاری کے پیروکار نظر آتے ہیں البتہ بعض مضامین انشائیہ کے زمرے میں آتے ہیں وہ الفاظ سے کھیلتے ہیں اور کھیل ہی کھیل میں پتے کی بات کہ جاتے ہیں۔ ممتاز شاعر حجاب عباسی نے کہا کہ ان کے مضامین میں آپ کو ایسے جملے میرکے نشتروں کی طرح ایک بڑی تعداد میںملیں گے جو دل کو اچھے لگتے ہیں۔ رو¿ف نیازی نے کہا کہ مزاح لکھنابڑا مشکل کام ہے لیکن ابوالفرح کی یہ کتاب واقعی خوب سے خوب تر ہے۔اس موقع پر روبینہ تحسین بینآ اور ممتاز ناول نگار اسلم راہی نے بھی اظہار خیال کیا۔ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نور محمد پٹھان نے استبقالی کلمات میں مزاحیہ ادب کی ترویج میں ابولفرح ہمایوں اور ان کے خاندان کی خدمات کو سراہا اور ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے کتاب کی انٹر نیٹ ایڈیشن کا افتتاح کیا۔
مخلص

محتر م جناب نیوز ایڈیٹر آغا نور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر


اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624

دسمبر۸۰۰۲ کے نصف ثانی میں تصوف کے موضوع پر ایک تین روزہ عالمی کانفرنس منعقد کی جائی گی اور پاکستان کے صوفی شعراءپر اکادمی ادبیات پاکستان سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کرے گی اور ا±ن کے عرس کے دن بھی منائے جائیں گے۔یہ بات اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین فخرزمان نے پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا ک ہ دسمبر ۸۰۰۲ ہی میں اہل قلم قومی کانفرنس کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔۷۰۰۲ میں چھپنے والی بہترین کتابوں کےلے ایوارڈ زبھی تقسیم کیے جائیں گے اور مختلف ادبی اور ثقافتی اداروں کے اشتراک سے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام مختلف زبانوں کے ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے سفارشات بھی مرتب کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کی عمارت میں ایک ادبی ٹی وی چینل اور ایف ایم ریڈیو بھی قائم کیا جائیگا تاکہ پاکستان میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے اور عالمی ادب میں رجحانات اور تازہ مطبوعات سے پاکستانی عوام کو روشناس کرایا جائے ۔ ایک آڈیووڈیو لائبریری کا قیام بھی منصوبے کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا ،ترکی، جاپان، رشیا ، پولینڈ، جرمنی، مصر، ملائیشیا، انگلینڈ اور وسطی ایشیا کے ممالک سے جہاں جہاں اردو بڑھائی جاتی ہے ان ممالک سے علمی ،ادبی اور ثقافتی سطح پر روابط استوارکیے جائیں گے۔ اس وقت صرف چین کے ساتھ ہی اکادمی ادبیات پاکستان کا علمی ، ادبی اور ثقافتی سطح پرمعاہدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ ۷۲ دسمبر کو محترمہ بیظیر بھٹوشہید کی شہادت کے دن پاکستانی زبانوں میں ا±ن کی نظموں کا انتخاب شائع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اکادمی ادبیا ت پاکستان کے رائیٹر س ہاو¿س کو وسعت دی جائے گی اور نئے سرے سے تزئیں و آرائش کی جائے گی ۔ رائٹرس ہاو¿س کی سہولت خاص ترجیحی بنیادوں پر اہل قلم، دانشوروں اور صحافیوں کے لیے فراہم کی گئی ہے ۔ اکادمی ادبیا ت پاکستان کے صوبائی دفاتر کی ذاتی عمارتوں کی تعمیرکے لئے کوششیں کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اکادمی ادبیا ت پاکستان کے آڈیٹوریم کی تعمیر کے کام کو جلد از جلد مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ انہوںکہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے اشاعتی منصوبے ” پاکستانی ادب کے معمار“ سیریز اردو میں شائع ہورہی ہے ۔ اس سلسلے کو دیگر پاکستانی زبانوں میں شائع کیا جائیگا اور پاکستانی ادب کے معماروں کے ساتھ ساتھ عالمی ادب کی بڑی شخصیات پر بھی کام کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ۵۹۹۱میں عالمی کانفرنس کے موقع پر فارسی اور اقوام متحدہ کی چھ زبانوں میں کتابیں شائع کی گئی تھیں۔ ان کتابوں کو اضافوں کے ساتھ دوبارہ شائع کیا جائیگا ۔ انہوں نے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے تحت ہر سال پاکستان کے صوفی شعراءپر لکھی جانیوالی بہترین کتاب پر ایک لاکھ روپے کا انعام دیا جائیگا جیسے اس وقت” شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت مستحق اہل قلم اور مرحوم اہل قلم کے خاندانوں کے لواحقین کو ۳ ہزار اور ۴ ھزار روپے کے حساب سے اعزازیہ دیا جاتا ہے اس رقم کو بڑھا کر یکساں مبلغ۰۰۰۵ روپے ماہانہ اعزازیہ دیا جائیگا ۔ انہوںنے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان ہر سال اپنی عمارت میں ایک عالمی کتاب میلے کا انعقاد کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ انشورنس اسکیم کے تحت مزید اہل قلم کو سہولت باہم پہنچائی جائے گی اس میںبیماری الاو¿نس بھی شامل کیا جائیگا۔ مخلص

محتر م جناب نیوز ایڈیٹر آغا نور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر
اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624

دسمبر۸۰۰۲ کے نصف ثانی میں تصوف کے موضوع پر ایک تین روزہ عالمی کانفرنس منعقد کی جائی گی اور پاکستان کے صوفی شعراءپر اکادمی ادبیات پاکستان سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کرے گی اور ا±ن کے عرس کے دن بھی منائے جائیں گے۔یہ بات اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین فخرزمان نے پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا ک ہ دسمبر ۸۰۰۲ ہی میں اہل قلم قومی کانفرنس کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔۷۰۰۲ میں چھپنے والی بہترین کتابوں کےلے ایوارڈ زبھی تقسیم کیے جائیں گے اور مختلف ادبی اور ثقافتی اداروں کے اشتراک سے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام مختلف زبانوں کے ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے سفارشات بھی مرتب کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کی عمارت میں ایک ادبی ٹی وی چینل اور ایف ایم ریڈیو بھی قائم کیا جائیگا تاکہ پاکستان میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے اور عالمی ادب میں رجحانات اور تازہ مطبوعات سے پاکستانی عوام کو روشناس کرایا جائے ۔ ایک آڈیووڈیو لائبریری کا قیام بھی منصوبے کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا ،ترکی، جاپان، رشیا ، پولینڈ، جرمنی، مصر، ملائیشیا، انگلینڈ اور وسطی ایشیا کے ممالک سے جہاں جہاں اردو بڑھائی جاتی ہے ان ممالک سے علمی ،ادبی اور ثقافتی سطح پر روابط استوارکیے جائیں گے۔ اس وقت صرف چین کے ساتھ ہی اکادمی ادبیات پاکستان کا علمی ، ادبی اور ثقافتی سطح پرمعاہدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ ۷۲ دسمبر کو محترمہ بیظیر بھٹوشہید کی شہادت کے دن پاکستانی زبانوں میں ا±ن کی نظموں کا انتخاب شائع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اکادمی ادبیا ت پاکستان کے رائیٹر س ہاو¿س کو وسعت دی جائے گی اور نئے سرے سے تزئیں و آرائش کی جائے گی ۔ رائٹرس ہاو¿س کی سہولت خاص ترجیحی بنیادوں پر اہل قلم، دانشوروں اور صحافیوں کے لیے فراہم کی گئی ہے ۔ اکادمی ادبیا ت پاکستان کے صوبائی دفاتر کی ذاتی عمارتوں کی تعمیرکے لئے کوششیں کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اکادمی ادبیا ت پاکستان کے آڈیٹوریم کی تعمیر کے کام کو جلد از جلد مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ انہوںکہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے اشاعتی منصوبے ” پاکستانی ادب کے معمار“ سیریز اردو میں شائع ہورہی ہے ۔ اس سلسلے کو دیگر پاکستانی زبانوں میں شائع کیا جائیگا اور پاکستانی ادب کے معماروں کے ساتھ ساتھ عالمی ادب کی بڑی شخصیات پر بھی کام کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ۵۹۹۱میں عالمی کانفرنس کے موقع پر فارسی اور اقوام متحدہ کی چھ زبانوں میں کتابیں شائع کی گئی تھیں۔ ان کتابوں کو اضافوں کے ساتھ دوبارہ شائع کیا جائیگا ۔ انہوں نے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے تحت ہر سال پاکستان کے صوفی شعراءپر لکھی جانیوالی بہترین کتاب پر ایک لاکھ روپے کا انعام دیا جائیگا جیسے اس وقت” شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت مستحق اہل قلم اور مرحوم اہل قلم کے خاندانوں کے لواحقین کو ۳ ہزار اور ۴ ھزار روپے کے حساب سے اعزازیہ دیا جاتا ہے اس رقم کو بڑھا کر یکساں مبلغ۰۰۰۵ روپے ماہانہ اعزازیہ دیا جائیگا ۔ انہوںنے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان ہر سال اپنی عمارت میں ایک عالمی کتاب میلے
کا انعقاد کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ انشورنس اسکیم کے تحت مزید اہل قلم کو سہولت باہم پہنچائی جائے گی اس میںبیماری الاو¿نس بھی شامل کیا جائیگا۔
اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624

(پ۔ر) اکادمی ادبیات پاکستان کے چئیرمین فخرزمان نے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان ، پاکستانی زبانوں کی ادبی تاریخ مرتب کرنے کے ایک جامع منصوبے پر جلد عمل در آمد شروع کرے گی۔ سینئراہل قلم کو اکادمی ادبیات پاکستان کی لائف فیلو شپ پیش کی جائی گی جنہوں نے عمر بھر شعرو ادب اور اپنی تحریروں کے باعث شہرت حاصل کی۔ اس کے علاوہ بچوں کے ادب اور لوک ادب کے شعبوں میں کتب پر ہرسال ادبی ایوارڈ بھی دئیے جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اکادمی ادبیا ت پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر کی میٹنگ کے دوران کیا۔ اس میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ اکادمی کے صوبائی دفاتر ہر ماہ دو سیمینار منعقد کرائیں گے۔ ” سرمایہ داری کا زوال “ اور دوسرا ” صوفی ازم کے تاریخی امکانات “ اوردیگر عنوانات کے تحت یہ سیمینار منعقد ہوں گے ۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اکادمی ادبیات ایک ادبی کیلینڈر شائع کرے گی جس میں اہل قلم کے حالات ِ زندگی اور ا±ن کی ادبی تحریروں کا انتخاب بھی شامل کیا جائیگا ۔ کیلینڈر میں پاکستان کے چوبیس صوفی شعراءکو نمایا جگہ دی جائے گی اور اس سلسلہ میں اکادمی کے علاقائی دفاتر بھر پور رابطہ اور تعاون کریں گے۔ چئیرمین اکادمی ادبیات پاکستان فخر زمان نے میٹنگ میںکہا کہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو اکادمی کے صوبائی دفاتر کا درجہ بڑھانے اور ان کے دفاتر کے لیے گاڑیوں کی فراہمی کی تجویز منظور کی گئی ہے۔ میٹنگ میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اکادمی کے علاقائی دفاتر میں سالانہ بنیادوں پر اہل قلم کانفرنس منعقد کی جائے اس ضمن میں آئندہ سال پہلی کانفرنس پشاور میں فروری ، دوسری لاہور میں مارچ تیسری کراچی میں اپریل اور چوتھی کوئٹہ میں مئی ۹۰۰۲ ءمیں ہوگی ۔ میٹنگ میں ظہرالدین ملک، ڈائریکٹر جنرل اکادمی ادبیات پاکستان ، مومن خان مروت ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمن اینڈ فنانس ، آغا نور محمد پٹھان ریزیڈنٹ ڈائریکٹر کراچی، قاضی جاویدریزیڈنٹ ڈائریکٹر لاہور، ڈاکٹر اعظم خان اعظم ،ریزیڈنٹ ڈائریکٹر پشاور، افضل مراد ریزیڈنٹ ڈائریکٹر کوئٹہ ، محمد صدیق ،اکاو¿نٹس آفیسر اور ملک مہر علی ، ایڈمن آفیسر نے شرکت کی۔

مخلص

محتر م جناب نیوز ایڈیٹر آغا نور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر


اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624

(پ۔ر) ظلم اور ناانصافی سے پاک خوبصورت دنیا کا خواب دیکھنے والے شاعر احمد فراز کا ہم سے جداہوجانا ، دنیائے ادب کا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے انہیں خراج تحسین عقیدت پیش کرنے کے لیے سہ ماہی ”ادبیات “ کا خصوصی شمارہ بیادِ احمد فراز کے نام سے شائع کیاہے۔خصوصی شمارے کی مہمان مدیر کشور ناہید نے اس کو بڑی محنت سے مرتب کرکے ایک یادگار شمارہ بنایاہے۔ ایک بڑے شاعر کے حوالے سے حال ہی میں اکادمی ادبیات پاکستان کی لائبریری کو ”احمد فراز لائبریری“ کے نام سے منسوب کردیا گیا ہے ۔ ان خیالات کا اظہاراکادمی ادبیات پاکستان کے چئیرمین فخرزمان نے سہ ماہی ” ادبیات “ کے خصوصی شمارے ” بیاد احمد فراز“ کی بریفنگ میںکیا۔ انہوں نے کہا کہ پروگریسیورائٹرز کے حوالے سے جن اقدامات کا اعلان کیاگیا تھا یہ اس کی پہلی کڑی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ احمد فراز محبت اور مزاحمت کے شاعر ہیں ۔انہوں نے رومانوی شاعری کے ساتھ ساتھ سیاسی ، سماجی اور معاشی جبر کے خلاف بھی صدائے اجتجاج بلند کی اور آمروں اور استحصالی قوتوں کو للکارا ۔حق گوئی کے اس وطیرے نے انہیں ارباب اختیار کے عتاب کا شکار بھی رکھا۔انہوں نے کہا کہ اس خصوصی شمارے میںاہم لکھنے والوںمیں فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی ، فارغ بخاری، رضا ہمدانی، انتظار حسین ، وارث علوی، ظفر اقبال ، کشور ناہید ، مسعود اشعر، محمد علی صدیقی اور اشفاق حسین کی یادگار تحریریں شامل ہیں۔ محبتیں کے عنوان سے پروین شاکر، ڈاکٹر اسلم فرخی ، ڈاکٹر مشیر الحسن ، شہزاد احمد محمد طہ خان ، ڈاکٹر محمد حسن، قمر رئیس ، زہرانگاہ ، مسعود مفتی ، توصیف تبسم ،شمیم حفنی، طاہر محمد خان، پروفیسر فتح محمدملک ، سجاد بابر ، آغا ناصر ، اصغر ندیم، سید، ڈاکٹر شاہ محمد مری، عابدحسین منٹو ، شمیم اکرام الحق ، ڈاکٹر فاطمہ حسن، حسن عباس رضا ، آصف فرخی، ڈاکٹر شاہین مفتی ڈاکٹر سحرامدادشاہ ،ثروت محی الدین ، تسنیم منٹو، شعیب سلطان خان،محسن شکیل، نعیم بخاری اور میاں غلام قادر کے مضامین شامل ہیں۔ رسالے میں ”گوشہ ایسے بھلے سخن کہے “ کے عنوان سے محسن احسان ، آفتاب اقبال شمیم ، کشورناہید ، شبنم شکیل ، حسن عباس رضا ، عروج اختر زیدی ، عباس تابش ، شوکت مہدی ، اشرف جاوید ،محبوب ظفر ، شکیل جاذب، علی یاسر اور امانت علی کی نظمیں شامل ہیں ۔ ” چیندے چند“ میں احمد فراز کا سوانح خاکہ اور ان کے تحریر کردہ دو اہم مضامین اور شاعری سے انتخاب شامل ہے۔ سہ ماہی ” ادبیات “ کے خصوصی شمارے ” بیاد احمد فراز“ کے مدیر منتظم ڈائریکٹر جنرل اکادمی ادبیات پاکستان ظہیرالدین ملک ، مدیر اعلیٰ ڈاکٹر راشد حمید ، مدیر محمد عاصم بٹ اور مہمان مدیرہ کشور ناہید ہیں۔ یہ شمارہ 304 صفحات پر مشتمل ہے۔
مخلص

محتر م جناب نیوز ایڈیٹر آغا نور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر


اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624

کراچی (پ۔ر ) بھارت سے آئے ہوئے برصغیر کے نامور نقاد دانشوراور ادیب ساہتیہ اکیڈمی کے سابق سربراہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے کہا ہے کہ افسانہ نگار اور شاعر احمد ہمیش میں ایک باغی مجاہد موجود ہے وہ جس طرح اپنے ادبی سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں اس میںا ن کا اصلی اور کھراپن صاف نظر آتا ہے ۔ یہ بات انہوں نے اکادمی ادبیا ت پاکستان اور پی ای سی ایچ لٹرری سوسائٹی کے زیر اہتمام نامور افسانہ نگار احمد ہمیش کے پچاس تخلیقی سال مکمل ہونے پر تقریب اعتراف کی صدارتی خطاب میںکہی ۔ گوپی چند نارنگ نے کہا کہ احمد ہمیش پاکستان آگئے میں ان کا چالیس برس سے اقبالی مجرم ہوں اور آج بھی ان کے نام کا وظیفہ پڑھتاہوں ۔ اس موقع پر مہمان خصوصی فاطمہ ثریا بجیا نے کہا کہ احمد ہمیش لکھتے رہیں وہ خوب لکھتے ہیں اسی لئے انہیں اردو دنیا میں پہچانا جاتا ہے ۔معروف افسانہ اور ڈرامہ نویس فردوس حیدر نے کہا کہ احمد ہمیش کی نثری نظمیں اپنے تنوع ، معنی کی گہرائی اورآہنگ کی ندرت کی بنا پر ایک منفرد مقام رکھتی ہیں ان کے افسانے دنیا کے مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوکر پسندیدگی کی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ عباس رضوی نے کہا کہ احمد ہمیش ایک منفرد اسلوب کے ساتھ اپنی منفرد مزاج بھی رکھتے ہیں انہوں نے اپنے اسلوب کی مطابقت سے نثری نظم کو موضوعی اور فنی توسیع بھی عطا کی ہے۔ممتاز دانشور شہریار خان میرزانے کہا کہ احمد ہمیش نے ایک بلوچ کا قرض اتارنے کےلئے پاکستان میں اپنے قیام کو ضروری سمجھا اور آج ہمیںسندھ کا قرض اتارنے کےلئے سوچنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ احمد ہمیش نے آسانیوں کے راستے پر چلنے کے بجائے مشکل راہوں پر چل کر زندگی گذارنے کو ترجیح دی ہے اس لئے آج تک وہ بے مکان ہیں۔ ممتاز دانشور طلعت آفتاب نے کہا کہ احمد ہمیش لمحہ حاضر کا وہ شاعر ہے جس نے بیک وقت آنکھوں اور ہاتھوں کی جنبش سے منظروں کا گھیراو¿ کرکے ایک ایسی بستی کی بنیاد رکھی ہے جس میں غصہ ، کدورت اس موم کی طرح پگھلتے ہیں جسے وجود کی دیا سلائی سے جلایاگیا ہو ممتاز شاعر سلمان صدیقی نے کہا کہ احمد ہمیش نے اپنے اظہار کوجس نئے پیرایہ متعارف کرایاہے اس سے ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا عتراف کرنا پڑتا ہے۔ پروگرام کے آغاز میں حیدر بخش ھکڑو نے کلام شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ اپنے مخصوص صوفیانہ انداز میں سنایا اور حاجی علی نواز وگن نے سندھی زبان میں نعت پڑھی جبکہ علی کاظمی اور علی رضوی نے احمد ہمیش کی نظمیں تحت اللفظ سنائیں نظامت کے فرائض ممتاز شاعر راشدنور اور کلثوم آفتاب نے سرانجام دئیے اس موقع پر مختلف شخصیات اور اداروں کی جانب سے احمد ہمیش کو شیلڈ پیش کی گئیں ۔ تقریب میں سلمان صدیقی ،اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغانور محمدپٹھان ، گوپی چند نارنگ ، فاطمہ ثریابجیا، سامعین اور سوسائٹی کے منتظمین کا شکریہ اداکیا۔ اس موقع پر احمد ہمیش نے اظہار تشکر کیا جبکہ پی ای سی ایچ سوسائٹی کے سیکریٹری حامد علی خان نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔
مخلص

محتر م جناب سید سخاوت علی جوہر آغا نور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر

اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624
کراچی (پ۔ر ) نصیر سومرو کی شاعری سندھی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کر کے محبت کا پیغام پھیلارہے ہیں نصیر سومرو جس سلیقے سے وہ سندھی زبان میں سریلے الفاظ شاعری کی لڑھی میں پروہتے ہیں ، وہی نقوش اردو شاعری میں بھی دکھا رہے ہیں ۔ یہ بات پروفیسر آفاق صدیقی نے موصوف کے تیسری شعری مجموعہ ” جل تے کنول جئین “ (جھیل پر کنول جیسے) کی تقریب رونمائی کے دوران صدارتی کلمات میں کہی سندھی اور اردو کے نامور شاعر تاجل بیوس نے کہا کہ نصیر سومرو کی شاعری اعلیٰ قدروں کی شاعری ہے، وہ شاعری کے فن اور تمام لوازمات سے بخوبی آشناہیں کتاب ”جل تے کنول جئیں“ ان کی صلاحیت کابین ثبوت ہے۔ وہ چاک و چوبند گھوڑے کی طرح شاعری کے سفر میں اپنے سامعین کو بہت آگے لیجانے کی ہمت رکھتے ہیں واضع رہے کہ تاجل بیوس کی یہ آخری تقریر تھی اس موقعے پر انہیں فالج کا حملہ ہوا، کچھ عرصہ زیر علاج اسپتال میں رہے اور وفات پاگئے۔ صاحب کتاب نے شرکاءکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ شاعری میرے لئے مقدس چیز ہے۔ اور میرا رجحان اور رویہ سنجیدہ ہے یہ ہی وجہ ہے کہ میں دو کتابیں لکھنے اور چھپنے کے بعد تیسری شعری مجموعہ” جل تے کنول جئیں“ لکھنے میں کامیاب ہواہوں اور میری کوشش ہے کہ شاعری و ادب کے میدان میں نئے نئے تجربات کرکے جدت کو فروغ دوں گوکہ میں پیشہ کے لحاظ سے انجنئر ہوں، مگر میں شاعر کہلانے میں فخر محسوس کرتاہوںانہوں نے کہاکہ میں نے علم و ادب کو مال و متاع پر فوقیت دی ہے۔ موجودہ عالمی حالات میں جہاں انتقام در انتقام کو طاقت کا سیر چشمہ سمجھاجاتا ہے، وہاں میں نے سندھ دھرتی کی صوفیانہ روایت کو مشعل راھ بنا کر عفوودرگذر اور برداشت کے جذبہ کو موضوع سخن بنایا ہے۔ تقریب کے میزبان آغا نو ر محمد پٹھان نے کہا کہ نصیر سرمرو ایک روشن خیال شاعر ہیں اور وہ عروض و چھندو دیا کے علوم میں مھارت رکھتے ہیں، یہ ان کی واحد خوبی ہے کہ ان کی شاعر میں کسی نقاد و شعراءکو بحرو وزن کی کمزوریاں نظر نہیں آئی ہیں فکر ہو کہ فن وہ اپنے ھمعصر شعراءمیں نمایا مقام رکھتے ہیں۔ ممتاز مھر نے کہا کہ نصیر سومرو کی شاعر ی پڑھنے کے بعد میں اس خیال کا ہوں کہ اچھا ادب فقط ہمارے پڑوسی ملک میںہی۔تخلیق نہیں ہوتا نصیرو سومرو صاحب رائے مضمون نگار بھی ہیں وہ وسیع مطالعہ کو موضوع سخن بناتے ہیں ۔ اس سلسلے میں پبلشر کو پابند کیا جائے کہ وہ باصلاحیت مصنفوں کی ادبی کاوشوں کو منظر عام پر لانے میں تعاون کریں نامور نقاد اور جانی پہچانی شخصیت نور محمد شیخ نے کہا کہ نصیرسومرو جیسے قابل اور ذہین قلمقاروں کے روزگار کا بندوبست ہونا چاہئے وہ دل کے عارضہ میں بھی لکھنے اور ادبی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں ۔ نور محمد شیخ نے کہا کہ مالی پریشانیوں اور گھریلومسائل کے باوجود نصیر کا تیسرا شعری مجموعہ لکھنا اور شایع کروانالائق تحسین ہیں۔ کتاب سلیقے سے لکھنے پر مبارک باد دیتے ہوئے نوجوان شاعر اور نقاد غوث پیرزادہ نے کہا کہ نصیر سومرو کو چاہئے کہ وہ شدت سے محسوس کرنا چھوڑ دے کیونکہ کہ یہ دنیا تنہا قلم کی نوک سے تبدیل نہیں کی جاسکتی ۔انہوں نے مزید کہا کہ میں حیران ہوں کہ نصیر کس طرح شاعر کی ہر صنف میں مہارت سے لکھتے اور فکرو فن سے انصاف کر تے ہیں ۔ وہ قادرالکلام شاعر ہیں ۔ وسیع مطالعہ اور تجربات کی جدید حیثیت سے آشنانصیر لسانیات کے بھی ماہر ہیں ا س لئے انہوں نے اپنی شاعری میں اردو اور زبان کے الفاظ کاانتخاب بھی کیاہے۔ کتاب کی تقریب رونمائی پروفیسر آفاق صدیقی تاجل بیوس ، ممتاز مھر ،آغا نور محمد پٹھان کے ہاتھوں انجام پائی ۔

آغا نور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر


اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624

کراچی (پ۔ر ) اکادمی ادبیات پاکستان کے چئیرمین فخرزمان نے سندھی اور اردو زبان کے معروف شاعر تاجل بیوس کے انتقال پر انہتائی دلی صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم پاکستانی ادب کے معمار وںمیں سے تھے ان کی وفات سے سندھی ادب اور شاعری کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ جس کا پرہونا مشکل ہے۔ انہوں نے مرحوم کےلئے دعائے مغفرت کی کہ اللہ تعالیٰ ان کو جوار رحمت میں جگہہ دے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نورمحمد پٹھان نے اپنے دفتر میں ایک تعزیتی اجلاس منعقد کیا اور مرحوم کو ادب کی میدان میں ان کوخراج تحسین کرتے ہوئے کہا کہ تاجل بیوس ہمارے ترقی پسند اور کلاسیکل ادب کی روایات کے حسین سنگم تھے ان کی اردو شاعری انداز بیان اور اور دیگر شعر ونثر پر ۵۴ کتب ان کی تخلیقی کاوشوں کی گواہی دے رہے ہیں۔ انہوں نے نے کہا کہ ادبان کی زندگی میں ان کا اوڑھنا بچھونا رہا اور ادب سے ان کی وابستگی زندگی کے آخری لمحات تک رہی اور اکادمی کے ادبی پروگرام ادبی اوطاق میں انہوں نے اپنی زندگی کی آخری مقالہ پڑھا۔آخر میں انکے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔


آغا نور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر










اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624

کراچی (پ۔ر ) اکادمی ادبیات پاکستان پاکستانی زبانوں کے ادب کے ترویج میں اہم کردارر ادا کررہی ہے ۔ پاکستانی زبانوں کے ادب کے حوالے سے اکادمی نے ایک نئے منصوبے کا آغا ز کردیا ہے جس میں 1947 سے2008 تک کی شاعر اور افسانے کا انتخاب پاکستانی زبانوںمیںعلیحدہ علیحدہ جلدوں میں شائع کیا جائیگا ۔ یہ بات اکادمی ادبیات پاکستان کے چئیرمین فخرزمان نے کہی ۔ انہوں نے کہا کہ اکادمی کا کام پاکستانی زبانوں کے ادب کا فروغ ہے۔ اس ضمن میں اکادمی کئی منصوبے شروع کررہی ہے ۔ایک منصوبے کے تحت سندھی، پنجابی، پشتو، سرائیکی، بلوچی، ہندکو اور نادرن ایریا کی زبانوں کے علاوہ دیگر پاکستانی زبانوں میں ضخیم جلدیں شائع کی جائیں گی۔ یہ جلدیں پاکستانی ادب کے ارتقاءکو سمجھنے میں اہم کرداردا کریں گی اور ادبی تاریخ کے حوالے کے طورپر یادرکھی جائیں گی۔ تمام زبانوں کے دودو جلدوں کے انتخاب میں ایک جلد شاعری پر اور دوسری افسانے پر محیط ہوگی۔ اکادمی ادبیات پاکستان پاکستانی زبانوں کے انگریزی تراجم پرمشتمل انتخاب بھی شائع کررہی ہے ۔یہ کتابیں پاکستانی ادب کو بیرون ملک روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کریں گی۔ انہوں نے بتایا کہ ان منصوبوں پر کام شروع ہوچکا ہے اور جلد ہی شائع کیاجائیگا۔




جناب آغا نور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر





اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میںسندھ رائٹر س کانفرنس

کراچی جو صوبہ سندھ کا دراالخلافہ ہے اور پاکستان کے ساتھ الحاق کی پہلی قراردادجو سندھ اسمبلی نے جس شہر میںپاس ہوئی اس شہر کے موسم بہار کی آمد کے ساتھ سندھ کے اہل قلم کے لئے بھی ایک خوش آئندہ خبرسندھ رائٹرز کانفرنس کی صورت میں اکادمی ادبیا ت پاکستان نے دی ابھی جناب فخرزمان نے اسلام آباد میں ۹۱۔۰۲ دسمبر۸۰۰۲ قومی ادبی کانفرنس اورعالمی صوفی سیمینار منعقد کروایا تھا اور وہاں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اب صوبوں کے اندر بھی صوبائی ادبی کانفرنس منعقد کی جائیں گی اکادمی ادبیات پاکستان کی صوبہ سندھ کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر نے اس اعلان کو سب سے پہلے عملی جامہ پہنایا اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے تعاون سے ایک عالیشان صوبائی کانفرنس کرکے دکھائی اس کانفرنس میں اکادمی کے ساتھ ھمدرد فاو¿نڈیشن اوربقائی میڈیکل یونیورسٹی،سندھ یونیورسٹی، دعوة اکیڈمی ، سندھی ادبی بورڈ،کا اشتراک بھی شامل رہا اس کانفرنس کی خوبی یہ تھی کہ اس میں کشمور سے کراچی تک اور شھداد کوٹ سے شاھ بندر تک اردو۔ سندھی،راجستانی، گجراتی، بلوچی، پشتو، پنجابی، براھوی، بروششکی اور سرائکی ادیبوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اوحکومت سندھ کے گورنر ہاﺅس سے لیکر وزیراعلیٰ سندھ اور اس کابینہ کی پھرپور نمائندگی موجود تھی افتتاحی اجلاس میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کو آنا تھا لیکن ان کی خصوصی ھدایت پر ان کے مشیر یوسف جمال نے ان کی نمائندگی کی۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی خصوصی ھدایت پر دو صوبائی وزیر ایاز سومرو، صوبائی وزیر قانون، اور محترمہ سسئی پلیجو صوبائی وزیر ثقافت و سیاحت نے پہلے اجلاس میں شرکت کی جبکہ دوسرے اجلاس میں خود وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نہ فقط تشریف لائے بلکہ تمام مصروفیات کے باوجود ادیبوں کے مقالے سنتے رہے۔وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ معاشرے کی ترقی میں ادیب نمایا ں کردار ادا کرتے ہیں ، کوئی بھی معاشرہ ادیبوںکونظر ا نداز کرکے ترقی نہیں کرسکتا ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں اکادمی ادبیات پاکستان صوبہ سندھ کے زیراہتمام ایک روزہ سندھ رائٹر کانفرنس کے دوسرے اجلاس میں بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہی کرتے ہوئی کہا جس کا موضوع ”قلم برائے امن“اور” سندھ کی صوفیانہ شاعری میں انسانی دوستی“تھا


قبل ازیں افتتاحی اجلاس سے گورنر سندھ کے مشیر خان یوسف جمال ،صوبائی وزیر ثقافت و سیاحت سندھ محترمہ سسی پلیجو،صوبائی وزئر قانون حکومت سندھ جناب ایاز سومرو چیئرمین سندھی لئنگئیج اتھارٹی ڈاکٹر فہمیدہ حسین نے بھی شرکت کی وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ادیب کی فکر اور سوچ آفاقی ہوتی ہے ، وہ اپنی تخلیقات میںپوری انسانیت کی بات کرتا ہے اس کی قوتِ پرواز بہت بلند ہوتی ہے۔ صوفیانہ شاعری میں محبت کا پیغام ہوتا ہے اس لیے اس کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ادیبوں کی فلاح بہبود کے لیے کام کرنا ہماری حکومت کے ایجنڈا میں شامل ہیں ۔ انہوں نے اکادمی کے چیئرمین فخرزمان کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے اکادمی کو 10 لاکھ روپیہ دینے کیا اعلان کیا ۔قبل ازیں اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین فخرزمان نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ صوفی ازم کی تحریک سے قومی یکجہتی کے پیغام کو عام کیا جاسکتاہے ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ادبی وفود کے تبادلوں کے پروگرام کو آخری شکل دی جارہی ہے اس سے غلط فہمیاں دور ہوں گی اور بھائی چارے کی فضاپروان چڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ جس معاشرے میںادیب کو توقیر نہ ملے وہ معاشرہ بہت جلدز میں بوس ہوجاتا ہے۔ انہوںنے وزیراعلیٰ سندھ سے مطالبہ کیا کہ کراچی اور سندھ کے دیگراہم شہروں میں رائٹرس کالونی ایک رائٹرز کلب کاقیام بھی ہوناچاہئے جہاں لکھنے پڑھنے والے جمع ہوں اگر حکومت سندھ یہ دونوں کام کرادیں توعلم دوستی بھی ہوگی اور ادب پروری بھی۔ ممتاز شاعر اور محقق، پروفیسرآفاق صدیقی نے کہا کہ شاہ لطیف نے تمام زندگی انسانوں سے محبت کا درس دیا ان کی پوری شاعری سچے جذبوں اور کھرے احساسات سے عبارت ہے انہوں نے کہا کہ صوفیانہ شاعری سے روحانی تسکین فراہم ہوتی ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کی پوری شاعری عشق حقیقی کی آئینہ دار ہے انہوں نے کہا کہ سندھی ادیبوں نے اردو میںمقالات پیش کیے ہیںاس کی تقلید میں اردو والوں کو بھی کرناچاہیے کہ وہ سندھی زبان سے اپنا رشتہ قائم کریں۔ چیئرمین سندھی لئنگئیج اتھارٹی ڈاکٹر فہمیدہ حسین نے کہا کہ سندھ کے تمام صوفی شاعروں نے انسانیت کا درس دیا ہے۔ سندھ یونیورسٹی جامشورو کی پروفیسر ڈاکٹر سحرامداد نے کہاکہ صوفی تحریک نے انسان دوستی کے پیغام کو آگے بڑھانے میںنہایت مو¿ثر کردار ادا کیا ۔ممتاز شاعرہ نجمہ خان نے کہا کہ شاہ لطیف ایک زندہ اور لازوال شاعر کی حیثیت سے تاقیامت لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے رہیں گے کیوکہ ان کی شاعری دیہی لوگ اور شہری آبادی میں رہنے والے دونوں روحانی تشکین حاصل کرتےہیں س طرح مولانا روم کی شاعری دنیا بھر میں ہر سطح اور طبقے میںمقبول ہے۔ قبل ازیں آرٹس کونسل کے اعزازی سیکریٹری محمد احمد شاہ نے کہا کہ ادب کے فروغ کے حوالے سے وہ ہر وقت اکادمی کے ساتھ ہر سطح پر تعاون کریں گے انہوں نے کہاکہ فخرزمان کی قیادت میں اکادمی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔۔ اس موقع پر معروف افسانہ نگار اور کالم نگار امرجلیلنے کہا کہ صوفی ازم کو مذھبوں میں تقسیم نہ کیا جائے کیونکہ صوفی کائنات اور انسانیت کی بات کرتا ہے۔ممتاز محقق سید مظہر جمیل نے کہا


کہ سندھ کی صوفیانہ شاعری میںرواداری محبت اور برادشت کا پیغام ہے یہ ان میں خوبی ہے کہ سندھ میں ہفتہ زبان شاعرپیداہوئے ۔ کانفرنس کا دوسرا اجلاس ۴بجے سہ پہر شروع ہوا اور ۶بجے شام ختم ہوا افتتاحی اجلاس سے ” قلم برائے امن“ کے موضوع پر صوبائی وزیر سیاحت و ثقافت (سندھ) سسئی پلیجونے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امن وامان کے قیام کے لئے حکومت کے ساتھ ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ اس محفل میں اردو سندھی رائٹرز کو یکجادیکھ کر خوشی ہورہی ہے۔ خدا یہ محبتیں قائم و دائم رکھے انہوں نے اس موقع پر اکادمی ادبیات پاکستان کے لیے 5 لاکھ روپیہ کا اعلان کیا۔ صوبائی وزیر قانون (سندھ) ایاز سومرو نے کہا کہ سندھ محبت کرنے والوں کی دھرتی ہے۔ اس سے وابستہ قلم کاروں کی خدمات مثالی ہی نہیں قابل تقلید بھی ہیں ، میں ہر ممکن تعاون کے لیے تیارہوں۔ گورنر سندھ کے مشیر خان یوسف جمال نے کہا کہ امن و آشتی کے لیے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے اتنی اہم ادبی کانفرنس یقیناایک نئی تاریخ رقم کرے گی ۔اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین فخرزمان نے کہاکہ پاکستانی ادیبوں اور شاعروں کو معتبر مقام دلانا ہماری ذمے داری ہے، علم و دانش کی حکمرانی ہوگی تو ہمارا ملک ترقی کرے گا۔ ملک کے چاروں صوبوں میں اس قسم کی ادبی کانفرنسوں کا اہتمام کیا جائے گا۔ انہوں نے اس موقع پر اعلان کیا کہ بہت جلد اکادمی کی جانب سے ایک ادبی ٹی وی چینل قائم کیا جائے گا جو صرف شعرو ادب کے لیے وقف ہوگا۔ ممتاز شاعر اور نقاد پروفیسر سحرانصاری نے کہا کہ جنگی طاقتوںکے خلاف امن کی آواز اٹھانا ہمارا اخلاقی فرض ہے۔ ممتاز نقاد ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے کہا کہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے امن کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے اور پوسٹ ماڈرن ازم کے حوالے سے مغربی مفکرین کے خیالات پر انہوں نے تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان سے انسانیت کے لئے کوئی امن اور آشتی کا کوئی پیغام نہیںہے۔ انہوںنے کہا کہ وحدت انسانیت کی بات سندھ کا صوفی کرتاہے اور شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ نے امن عالم کی دعا کی ہے اس لئے سندھ رائٹرز کانفرنس کایہ ہی پیغام ہم ہے ہم لے کر جائیں گے۔ ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض نے کہا کہ سندھ شروع سے صوفی شعراءکی وجہہ سے ہمیشہ امن کا گہوارہ رہاہے اور ہماری ہمیشہ خواہش رہی کہ یہ صوبہ امن کا گہوارہ بنارہے لیکن اس صوبہ کے ادیبوں کو غداری کے الزام لگا کر در زندان کیا جاتارہاہے جس کا ثبوت شیخ ایاز کی ساھیول جیل کی ڈائری ہے۔ انہوںنے کہاکہ شیخ ایاز نے گولی کے بجائے محبت کے گیت گانے کی بات کی ہے۔ صدر تقریب سندھ کے ممتاز دانشور کامریڈ سوبھوگیان چندانی نے کہا کہ ہم نے ہر دور میں انسانیت کا درس دیا۔ جس کی ہمیں سزا بھی ملی انہوں نے کہا کہ جاگیردارنہ نظام نے غیر انسانی رویوں کو جنم دیا ہے انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ اکادمی اردو کے ساتھ دوسری زبانوں کے ادیبوں کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل رکھے گی۔ قبل ازیں اکادمی ادبیات پاکستان (سندھ ) کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نورمحمد پٹھان استقبالی کلمات میںکہاکہ فخرزمان کے بطور چیئرمین


نے صوبائی آفیسوں کو کام کرنے کا فری ھینڈدیا ہے جس کا مظہر یہ صوبائی رائٹرس کانفرنس ہے اور یہ ایک آغاز ہے، انشاءاللہ ابھی ہم اور آگے بڑھیں گے اور ادب کے ذریعہ محبتوں کی خوشبو¿ پھیلائیں گے۔ مسلم شمیم اورعبدالفتاح ملکنے سندھ میں امن کے حوالے سے نے ایک خوبصورت نظم کہی، ڈاکٹر در محمد پٹھان، ڈاکٹر قاسم بگھیواور صبا اکرام نے بھی قلم برائے کے موضوع پر مقالے پڑھے ۔ عنبرین حسیب عنبر نے نظامت کے فرائض انجام دیئے جبکہ امداد حسینی نقاش کاظمی اور جاوید منظر نے امن کے موضوع پر نظمیں پیش کیں۔ ایک روزہ رائٹرس کانفرنس کا پہلااجلاس ۱۱بجے صبح شروع ہوا اور ۳ بجے سہ پہر اختتام پذیر ہوا۔ آخر میں بعد ازاں محفل موسیقی کااہتمام کیا گیایہ محفل سندھ کے عارفانہ کلام کے حوالے سے تہذیب فاو¿نڈیشن کے تعاون سے منعقد کی گئی تھی جس میں اقبال شاد گروپ نے امیر خسرو کے کلام کو گروپ کی شکل میں گایا جبکہ اویس جمن امام بخش زرداری ، اطہر شاہ محمد آچر علی محمد سرمستانی شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ،سچل سرمست اور دیگر سندھ کے صوفیاءکے کلام کو گاکرسامعین کو جھومایا عارفانہ کلام کی محفل کے اختتام پر فاو¿نڈیشن کے سیکریٹری شریف اعوان نے اکادمی ادبیات اور دیگر سامعین کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے آئندہ کےلئے بھی اپنے تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ سندھ بھر سے آئے ہوئے سارے اہل قلم کی موجودگی ہمارے لئے باعث اعزاز ہے۔ شرکاءکے لیے ظہرانہ کا اہتمام بقائی یونیورسٹی اور عشائیہ ھمدرد فاو¿نڈیشن نے کیا ۔اور آخر میں تمام مندوبین کےلئے کلفٹن کے باغ ابن قاسم میں سٹی گورنمنٹ کی جانب سے چائے کی تواضع کی گئی اور علی حسن شہزاد ڈائریکٹر میڈیا سٹی گورنمٹ نے چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان جناب فخرزمان آغا نور محمدپٹھان ریزیڈنٹ ڈائریکٹر اورممتاز کالم نگارڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کو پھولوں کے گل دستے پیش کئے اس کانفرنس میں اردو ، سندھی کے علاوہ پنجابی، پشتو، سرائیکی، بلوچی، اور براھوی اوردیگرزبانوں کے شاعروںاورادیبوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔

محترم جناب طفیل عباس
چیف ایڈیٹر مخلص
ماہوار منشورکراچی
آغا نور محمدپٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر





اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624

منیف اشعر کی شاعری میں زبان و بیان کے محاسن اور موضوعات کا تنوع ملتا ہے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام ممتاز شاعر منیف اشعر کے اعزازمیں ایک استقبالیہ میں وہ شاعری کو ایک شعوری عمل سمجھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ شاعری حادثاتی طور پر نہیں ہوتی یہ بات ممتاز مزاح نگار و کالم نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے صدارتی خطاب میںکہی ۔معروف شاعرہ گلنار آفرین نے کہا کہ منیف اشعر ایک حساس شاعر اور جذبات ، احسات اور محبتوں سے بھرپور شخصیت کے مالک ہیں ان کی شاعری میں وطن سے محبت اور اپنے وطن کی یادوں کے تمام رنگ موجود ہیں۔معروف شاعر رفیع الدین راز نے کہا کہ منیف اشعر نے غزل کی روایات اور تقاضوں کو پوری طرح نبھایا ہے۔ ممتاز شاعر منظر ایوبی نے کہا کہ دیار غیر میں رہہ کر بھی منیف اشعر نے انسانی اقدار کا پوری طرح ادراک رکھتے ہیں اور شاعری کے ذریعہ انہوں نے اردو زبان وادب کی خدمات جاری رکھی ہوئی ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغانور محمد پٹھان نے اپنے استقبالی کلمات میں کینڈا سے آنے والے مہمان شاعر کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ بیرون ملک رہنے والے ہمارے شاعر اور ادیب نہ فقط ادب کی خدمت کررہے ہیں بلکہ وہ ہمارے ادبی سفارتکاری بھی کرتے ہیں ۔ پاکستانی ادب کو بیرون ملک روشناس کروانے میںہمارے ان ادباء وشعراءکا بڑا کردار ہے۔



جناب نیوز ایڈیٹر آغا نور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر



اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624

اکادمی ادبیات پاکستان کے چئیرمین فخرزمان نے سارک رائیٹرز فاو¿نڈیشن کے زیر اہتمام آگرہ ا نڈیا میں منعقد سارک رائیٹرز فیسٹول میں سارک ممالک کے اہل قلم سے خطاب کرتے ہوئے تجویزدی کہ سارک ممالک کو دانشوروں ، قلمکاروں اور فنکاروں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دی جائے جو انتہا پسندی تشدد پسندی اور تعصب کے خلاف جدوجہد میں بنیادی کردار ادا کرے ۔ انہوں نے کہاکہ سارک ممالک کے اہل قلم کو تو اتر کے ساتھ ایک دوسرے سے ملتے رہنا چاہیے اور باہمی اتفاق رائے سے ایسی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے جس سے وہ قیام امن کی کوششوں میں حکومتی نمائندگی کریں اور اندوہناک اور المیاتی واقعات کے ذمہ دار عناصرکی سرکوبی اور حوصلہ شکنی کے خلاف حکومت کے ساتھ شامل ہوں۔ فخرزمان نے یہ تجویز بھی دی کہ سارک ممالک اور خاص طورپر پاکستان اورانڈیا کے درمیان ویزے کی بندش ختم کردینی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ دانشور اور اہل قلم مبمبران پارلیمنٹ ججوں اور کاروباری حضرات سے کہیں زیادہ اہم ہیں تو پھر انہیں کوسارک ممالک کے ویزہ کے سلسلے میں یہ رعایت کیوں نہیںدی گئی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زوردیا کہ برصغیر کی صوفیانہ روایات اور انسان دوستی پر مبنی کلچرکو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے جس سے ہم تحمل ، بردباری اورمذہبی رواداری کو فروغ دے سکتے ہیں۔ فخرزمان نے اس امر کا اظہار کیا کہ وہ سارک ممالک کے اہل قلم کی تحریروں سے انتخاب کے تراجم شائع کریں گے، وہ ایسی ہی کاوشوں کی دیگر ممالک سے بھی توقع رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے اجیت کور کی کاوشوں کو سراہا ۔ فاو¿نڈیشن کی چئیرپر سن اجیت کور نے یقین دہانی کرائی کہ جتنی جلدی ممکن ہوسکا دانشوروں ، قلمکاروں اور فنکاروں پرمشتمل ایک مشترکہ کمیشن تشکیل دیا جائیگا۔ اس سارک رائیٹرز کانفرنس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر ،پروفیسر مشیرالحسن ، تاریخ اور صوفی ازم کی معروف اسکالر ڈاکٹر فاطمہ حسین ،شری ستیہ پال اور سری لنکا ، نیپال ، بھوٹان ، بنگلہ دیش کے نامور اسکالر بھی موجود تھے۔ پاکستانی اہل قلم کے وفد میں مسز پروین عاطف، اور رضاموسی نے مضامین پڑھے ۔ پاکستانی کلاسیکل سنگر اختر خان نے بلھے شاہ کا کلام سنایا۔

جناب نیوز ایڈیٹر آغا نور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر



اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624

حکومت پاکستان نے چئیرمین اکادمی ادبیات پاکستان کو ادب کے شعبے میں شاندار ادبی خدمات کے اعتراف میں اعلیٰ ترین اعزازہلال امتیاز سے نوازاہے یہ ایوارڈ صدر پاکستان نے یوم پاکستان ۳۲ مارچ کو ایوان صدر میں ایک خصوصی تقریب میں عطا کیا۔ فخرزمان کی اب تک پنجابی ،اردو، انگریزی زبان میں ۵۳ سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں اُن کے پانچ پنجابی ناول اور شعر ی مجموعے ۸۷۹۱میں جنرل ضیاءالحق کی آمرانہ حکومت نے ضبط کیے تھے ۔ ان کتابوں کو کتابوں کی دُکانوں سے زبردستی اٹھوا کر ان پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ ان کتابوں پر ۸۱ سال کے بعد ۶۹۹۱ءمیں لاہور ہائی کورٹ نے پابندی اُٹھائی ۔ یہ ادب کی تاریخ میں واحد مثال ہے کہ کسی مصنف کی پانچ کتابوں کو ایک ساتھ ضبط کر کے ۸۱ سال کے بعد قانونی جنگ کے بعد پابندی اُٹھائی گئی ہو۔ فخرزمان کی تحریروں کو بھارت کی چھ یونیورسٹیوں میںپوسٹ گریجویٹ نصاب میں شامل کیا گیا اور اُن کے ناولوں اور شاعری کے مجموعوں پر بے شمار پی ایچ ڈی اور ایم فل کے تھیسیز لکھے جاچکے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی نے ایم اے پنجابی کے نصاب میں ان کی تحریروں کو لازمی مضمون کے طورپر شامل کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی سب سے پہلی کلچرل پالیسی کا تصور بھی دیا جو محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت نے ۵۹۹۱ءمیں نافذ کی اور جو ابھی تک نافذ العمل ہے۔ انہیں ۰۰۰۲ میں دہلی میں بہترین پنجابی ناول نگار کے طور پر میلینیم ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انہوں نے بہت سے بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کیے جن میں سے تازہ ترین حکومت پنجاب انڈیا کی جانب سے اُن کی خدمات کے اعزاز ات کے طور پر دیا گیا ۔ ” شیرو منی سیھیتک ایوارڈ“ ہے۔ وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں یہ بھارتی ایوارڈ دیا گیا ۔ فخرزمان ورلڈ پنجابی کانگریس ، انٹرنیشنل کانگریس آف رائٹرس آرٹسٹ اورانٹلیکچوئلس کے چئیرمین بھی ہیں ۔ وہ آجکل اکادمی ادبیات پاکستان کے صدر نشین ہیں۔
جناب ذیشان صدیقی آغا نور محمد پٹھان
روزنامہ جنگ کراچی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر






اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624

حکومت پاکستان نے چئیرمین اکادمی ادبیات پاکستان کو ادب کے شعبے میں شاندار ادبی خدمات کے اعتراف میں اعلیٰ ترین اعزازہلال امتیاز سے نوازاہے یہ ایوارڈ صدر پاکستان نے یوم پاکستان ۳۲ مارچ کو ایوان صدر میں ایک خصوصی تقریب میں عطا کیا۔ فخرزمان کی اب تک پنجابی ،اردو، انگریزی زبان میں ۵۳ سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں اُن کے پانچ پنجابی ناول اور شعر ی مجموعے ۸۷۹۱میں جنرل ضیاءالحق کی آمرانہ حکومت نے ضبط کیے تھے ۔ ان کتابوں کو کتابوں کی دُکانوں سے زبردستی اٹھوا کر ان پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ ان کتابوں پر ۸۱ سال کے بعد ۶۹۹۱ءمیں لاہور ہائی کورٹ نے پابندی اُٹھائی ۔ یہ ادب کی تاریخ میں واحد مثال ہے کہ کسی مصنف کی پانچ کتابوں کو ایک ساتھ ضبط کر کے ۸۱ سال کے بعد قانونی جنگ کے بعد پابندی اُٹھائی گئی ہو۔ فخرزمان کی تحریروں کو بھارت کی چھ یونیورسٹیوں میںپوسٹ گریجویٹ نصاب میں شامل کیا گیا اور اُن کے ناولوں اور شاعری کے مجموعوں پر بے شمار پی ایچ ڈی اور ایم فل کے تھیسیز لکھے جاچکے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی نے ایم اے پنجابی کے نصاب میں ان کی تحریروں کو لازمی مضمون کے طورپر شامل کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی سب سے پہلی کلچرل پالیسی کا تصور بھی دیا جو محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت نے ۵۹۹۱ءمیں نافذ کی اور جو ابھی تک نافذ العمل ہے۔ انہیں ۰۰۰۲ میں دہلی میں بہترین پنجابی ناول نگار کے طور پر میلینیم ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انہوں نے بہت سے بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کیے جن میں سے تازہ ترین حکومت پنجاب انڈیا کی جانب سے اُن کی خدمات کے اعزاز ات کے طور پر دیا گیا ۔ ” شیرو منی سیھیتک ایوارڈ“ ہے۔ وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں یہ بھارتی ایوارڈ دیا گیا ۔ فخرزمان ورلڈ پنجابی کانگریس ، انٹرنیشنل کانگریس آف رائٹرس آرٹسٹ اورانٹلیکچوئلس کے چئیرمین بھی ہیں ۔ وہ آجکل اکادمی ادبیات پاکستان کے صدر نشین ہیں۔

جناب نیوز ایڈیٹر آغا نور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر


اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624

حکومت پاکستان نے چئیرمین اکادمی ادبیات پاکستان کو ادب کے شعبے میں شاندار ادبی خدمات کے اعتراف میں اعلیٰ ترین اعزازہلال امتیاز سے نوازاہے یہ ایوارڈ صدر پاکستان نے یوم پاکستان ۳۲ مارچ کو ایوان صدر میں ایک خصوصی تقریب میں عطا کیا۔ فخرزمان کی اب تک پنجابی ،اردو، انگریزی زبان میں ۵۳ سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں اُن کے پانچ پنجابی ناول اور شعر ی مجموعے ۸۷۹۱میں جنرل ضیاءالحق کی آمرانہ حکومت نے ضبط کیے تھے ۔ ان کتابوں کو کتابوں کی دُکانوں سے زبردستی اٹھوا کر ان پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ ان کتابوں پر ۸۱ سال کے بعد ۶۹۹۱ءمیں لاہور ہائی کورٹ نے پابندی اُٹھائی ۔ یہ ادب کی تاریخ میں واحد مثال ہے کہ کسی مصنف کی پانچ کتابوں کو ایک ساتھ ضبط کر کے ۸۱ سال کے بعد قانونی جنگ کے بعد پابندی اُٹھائی گئی ہو۔ فخرزمان کی تحریروں کو بھارت کی چھ یونیورسٹیوں میںپوسٹ گریجویٹ نصاب میں شامل کیا گیا اور اُن کے ناولوں اور شاعری کے مجموعوں پر بے شمار پی ایچ ڈی اور ایم فل کے تھیسیز لکھے جاچکے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی نے ایم اے پنجابی کے نصاب میں ان کی تحریروں کو لازمی مضمون کے طورپر شامل کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی سب سے پہلی کلچرل پالیسی کا تصور بھی دیا جو محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت نے ۵۹۹۱ءمیں نافذ کی اور جو ابھی تک نافذ العمل ہے۔ انہیں ۰۰۰۲ میں دہلی میں بہترین پنجابی ناول نگار کے طور پر میلینیم ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انہوں نے بہت سے بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کیے جن میں سے تازہ ترین حکومت پنجاب انڈیا کی جانب سے اُن کی خدمات کے اعزاز ات کے طور پر دیا گیا ۔ ” شیرو منی سیھیتک ایوارڈ“ ہے۔ وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں یہ بھارتی ایوارڈ دیا گیا ۔ فخرزمان ورلڈ پنجابی کانگریس ، انٹرنیشنل کانگریس آف رائٹرس آرٹسٹ اورانٹلیکچوئلس کے چئیرمین بھی ہیں ۔ وہ آجکل اکادمی ادبیات پاکستان کے صدر نشین ہیں۔

جناب ذیشان صدیقی آغا نور محمد پٹھان
روزنامہ جنگ کراچی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر



اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624



















اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624

(پ۔ر) اردو کے معروف ادیب، اسکالر اور نقاد ڈاکٹر قمر رئیس دہلی ، بھارت میں مختصر علالت کے بعد انتقال کر
گئے ۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے چئیرمین فخرزمان نے ڈاکٹر قمر رئیس کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ فخرزمان
نے کہا کہ ڈاکٹر قمر رئیس ترقی پسند تحریک سے منسلک تھے اور انہوں نے روشن خیالی، ترقی پسندی کے حوالے سے اہم خدمات
انجام دیں ہیں۔ وہ پاکستان کے اردو اور پنجابی ادبی حلقوں میںہر دلعزیز تھے۔ وہ ورلڈ پنجابی کانگرس کی لاہور میں ہونے
والی کانفرنسوں میں شمولیت کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر قمر رئیس نے دونوں ملکوں میں امن کے حوالے سے اہم کام سرانجام دیا ۔فخرزمان
نے کہا کہ ڈاکٹر قمر رئیس سے میرے ذاتی مراسم تھے۔ وہ بہت شفیق شخصیت اور اعلیٰ انسان تھے۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت
میں امن کے کلچرکو فروغ دینے کے لیے جو کام کیے ان کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ چئیرمین اکادمی ادبیات پاکستان فخرزمان اور
ڈائریکٹر جنرل اکادمی ادبیات پاکستان خالد اقبال یاسر ، ظہرالدین ملک اور آغا نورمحمد پٹھان ریزیڈنٹ ڈائریکٹرنے مرحوم کے
لیے مغفرت اورلواحقین کےلے صبرجمیل کی دعا کی۔

آغا نور محمدپٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر







اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624












محترم جناب طارق شاہد آغا نور محمدپٹھان
افسر تعلقات عامہ ریزیڈنٹ ڈائریکٹر
اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد





اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588
Cell: 0300-2161624
پریس ریلیز




















اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588
Cell: 0300-2161624
پریس ریلیز























اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624














محترم جناب نیوز ایڈیٹر آغا نورمحمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر


اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624

شہر کراچی اور اس کی بندر گاہ کی تاریخ پرمزید تحقیق کی ضرورت ہے سید ادیب حسین نے اردو زبان میں یہ کتاب مرتب کرکے قابل تعریف خدمت سرانجام دی ہے یہ بات ممتاز مورخہ و محقق ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نےاکادمی ادبیات پاکستان اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام سید ادیب حسین کی کتاب ”کراچی اور اس کی بندرگاہ“ کی تقریب اجرا کے موقعے پر اپنے تحریر ی پیغام میںکہی۔مہمان خاص اور سٹی ناظم سید مصطفی کمال نے کہا کہ سید ادیب حسین نے یہ کتاب لکھ کر چار صدی قبل کے کراچی اور آج کے جدید کراچی کی جامع اور مستند تاریخ لکھ کر شہرکراچی کے ساتھ اور اپنے ادارے سے محبت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی اس وقت پاکستانی معیشت کی شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا تحفظ ملک کی بقاکے لئے انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے شہریوں کو پینے کا پانی اور بجلی کی فراہمی میں مزید اضافے کی ضرورت ہے اس لئے ہم رونے اور چلانے کے بجائے کے بجائے اپنے شہریوں کی امدادسے اپنے مجوزہ اور جاری منصوبوں کو مکمل کریں گے اور اس سلسلے میں اپنے شہریوں سے مثبت توقعات وابستہ ہیں اور اس کا جواب حوصلہ افزاہے ۔ صدر تقریب سابق چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ ایم آئی ارشد نے کہا کہ کراچی کی بندرگاہ اس ملک کےلئے قدرت کا عطیہ ہے اس پر آج تک کوئی مستند کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔ مصنف اس پورٹ سے بحیثیت ملازم طویل عرصے تک منسلک رہے ہیں انہوں نے یہ جامع کتاب لکھ اپنے ادارہ ہ سے حق وفاداری ادا کیا ہے۔ادارہ ترقیات کراچی کے سابق سربراہ احمد حسین صدیقی نے کہا کہ اس کتاب میںقارئین کی دلچسپی کا بہت سا مواد جمع کیا گیا ہے اور یہ بندرگاہ کے حوالے سے ایک حوالے کی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نور محمد پٹھان نے کہا کہ کراچی بندرگاہ کے تجارتی استعمال پہلی بار تالپور دور سے آغاز ہوا اس سے پہلے دیبل بندر، کیٹی بندر اور شاہ بندر سندھ کے مشہوربندرگاہ تھے۔انہوں نے کہاکہ ایران کے بندرعباس سے لیکرکیٹی بندرتک آج بھی وہاں کے شہری اورساحلی علاقوں کے ماھیگیر ایک ہی زبان بولتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کتاب قدیم کراچی اور جدید کراچی کا تقابلی منظر نامہ مصنف نے پیش کیاہے اور اس کتاب کی تحقیق میں دس سال کا عرصہ لگایاہے اس لئے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ممتاز مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے کہاکہ سید ادیب حسین نے اپنے اس تصنیف میں ایک نئے اندازسے کراچی شہر اور اس کی بندرگاہ کی تاریخ


تلاش کی ہے اور نہ فقط کراچی بلکہ اس کے ساتھ اس میں سندھ کی تاریخ کی جھلکیاں بھی ملتی ہےں پروفیسر سحرانصاری نے کہا کہ
کراچی اور اس کی بندرگاہ پر اردو زبان میں پہلی ایک مستند کتاب لکھ کر ایک تاریخی کام کیا ہے جس کی تلاش تاریخ کے طالب علموں اور محققوں کو عرصہ دراز سے تھی فاطمہ ثریابجیہ نے کہا کہ کراچی شہر کے اندر ایک رومانوی کشش موجودہے اس لئے مسائل کے باوجود اس شہر میں پورا پاکستان بستا ہے انہوں نے شہر کے نوجوان ناظم سید مصطفی کمال کو اس شہر کی قلیل عرصے میں جدید طرز تعمیر پر خراج تحسین پیش کیا اور اپنی طرف سے ناظم شہر کو قائم کردہ ترقیاتی ٹرسٹ کے لئے دوہزار روپیہ کی رقم بھی پیش کی آرٹس کونسل کے جنرل سیکریٹری احمد محمد شاہ نے آنے والے تمام شرکاءاور سٹی ناظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا آج کی تقریب ایک کراچی کی بندرگاہ کے حوالے سے لکھی گئی کتاب کی ایک تاریخی تقریب ہے اور آرٹس کونسل کو اُس کے تقریب کے انعقاد پر فخر کا احساس ہورہاہے۔ تقریب کی نظامت رضوان صدیقی نے کی۔

محترم جناب نیوز ایڈیٹر آغا نورمحمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر













پریس ریلیز
شہر کراچی اور اس کی بندر گاہ کی تاریخ پرمزید تحقیق کی ضرورت ہے سید ادیب حسین نے اردو زبان میں یہ کتاب مرتب کرکے قابل تعریف خدمت سرانجام دی ہے یہ بات ممتاز مورخہ و محقق ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نےاکادمی ادبیات پاکستان اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام سید ادیب حسین کی کتاب ”کراچی اور اس کی بندرگاہ“ کی تقریب اجرا کے موقعے پر اپنے تحریر ی پیغام میںکہی۔مہمان خاص اور سٹی ناظم سید مصطفی کمال نے کہا کہ سید ادیب حسین نے یہ کتاب لکھ کر چار صدی قبل کے کراچی اور آج کے جدید کراچی کی جامع اور مستند تاریخ لکھ کر شہرکراچی کے ساتھ اور اپنے ادارے سے محبت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی اس وقت پاکستانی معیشت کی شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا تحفظ ملک کی بقاکے لئے انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے شہریوں کو پینے کا پانی اور بجلی کی فراہمی میں مزید اضافے کی ضرورت ہے اس لئے ہم رونے اور چلانے کے بجائے کے بجائے اپنے شہریوں کی امدادسے اپنے مجوزہ اور جاری منصوبوں کو مکمل کریں گے اور اس سلسلے میں اپنے شہریوں سے مثبت توقعات وابستہ ہیں اور اس کا جواب حوصلہ افزاہے ۔ صدر تقریب سابق چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ ایم آئی ارشد نے کہا کہ کراچی کی بندرگاہ اس ملک کےلئے قدرت کا عطیہ ہے اس پر آج تک کوئی مستند کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔ مصنف اس پورٹ سے بحیثیت ملازم طویل عرصے تک منسلک رہے ہیں انہوں نے یہ جامع کتاب لکھ اپنے ادارہ ہ سے حق وفاداری ادا کیا ہے۔ادارہ ترقیات کراچی کے سابق سربراہ احمد حسین صدیقی نے کہا کہ اس کتاب میںقارئین کی دلچسپی کا بہت سا مواد جمع کیا گیا ہے اور یہ بندرگاہ کے حوالے سے ایک حوالے کی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نور محمد پٹھان نے کہا کہ کراچی بندرگاہ کے تجارتی استعمال پہلی بار تالپور دور سے آغاز ہوا اس سے پہلے دیبل بندر، کیٹی بندر اور شاہ بندر سندھ کے مشہوربندرگاہ تھے۔انہوں نے کہاکہ ایران کے بندرعباس سے لیکرکیٹی بندرتک آج بھی وہاں کے شہری اورساحلی علاقوں کے ماھیگیر ایک ہی زبان بولتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کتاب قدیم کراچی اور جدید کراچی کا تقابلی منظر نامہ مصنف نے پیش کیاہے اور اس کتاب کی تحقیق میں دس سال کا عرصہ لگایاہے اس لئے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ممتاز مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے کہاکہ سید ادیب حسین نے اپنے اس تصنیف میں ایک نئے اندازسے کراچی شہر اور اس کی بندرگاہ کی تاریخ تلاش کی ہے اور نہ فقط کراچی بلکہ اس کے ساتھ اس میں سندھ کی تاریخ کی جھلکیاں بھی ملتی ہےں پروفیسر سحرانصاری نے کہا کہ کراچی اور اس کی بندرگاہ پر اردو زبان میں پہلی ایک مستند کتاب لکھ کر ایک تاریخی کام کیا ہے جس کی تلاش تاریخ کے طالب علموں اور محققوں کو عرصہ دراز سے تھی فاطمہ ثریابجیہ نے کہا کہ کراچی شہر کے اندر ایک رومانوی کشش موجودہے اس لئے مسائل کے باوجود اس شہر میں پورا پاکستان بستا ہے انہوں نے شہر کے نوجوان ناظم سید مصطفی کمال کو اس شہر کی قلیل عرصے میں جدید طرز تعمیر پر خراج تحسین پیش کیا اور اپنی طرف سے ناظم شہر کو قائم کردہ ترقیاتی ٹرسٹ کے لئے دوہزار روپیہ کی رقم بھی پیش کی آرٹس کونسل کے جنرل سیکریٹری احمد محمد شاہ نے آنے والے تمام شرکاءاور سٹی ناظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا آج کی تقریب ایک کراچی کی بندرگاہ کے حوالے سے لکھی گئی کتاب کی ایک تاریخی تقریب ہے اور آرٹس کونسل کو اُس کے تقریب کے انعقاد پر فخر کا احساس ہورہاہے۔ تقریب کی نظامت رضوان صدیقی نے کی۔

محترم جناب سید سخاوت علی جوہر کوڑل ڈھراج
ایڈیٹر ماہوار فلمی آرٹ کراچی پریس کوآرڈینٹر

اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624

عربی اور فارسی زبانیں ہمارے ایک ہزار سالہ تہذیبی سرگرمیوں تاریخی ماخدات اور ادب عالیہ کی امین ہیں لہذاان زبانوں کو سیکھنا ہماری تہذیبی اور دینی شعور کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اس لئے ہماری دینی درسگاہوں میں فقہیہ اور گرامر
کے ساتھ ساتھ ادب، تاریخ اور سیرت کے موضوعات پر مزید توجہہ کی ضرورت ہے۔یہ بات اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغانور محمدپٹھان نے ورلڈ کونسل آف ریلچنز پاکستان اور (WCRP)اور ریجنل دعوة سینٹر (سندھ) کراچی ، دعوة اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے زیراہتمام دینی ٍ مدارس کے فضلاءکو عصرِ کے چیلنجز اور امتِ مسلمہ کو درپیش صورتحال پرتین روزہ ورکشاپ برائے اساتذہ دینی مدارس میں خطاب کے دوران کہی ۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں سندھ کے دینی درسگاہوں میں عربی اور فارسی ذریعہ تعلیم رہی ہے اس لئے مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی ، شاہ فقیر اللہ علوی ، مخدوم نوح شیخ حیات سندھی، مخدومعین ٹھٹوی سے لے کر علامہ غلام مصطفی قاسمی تک بڑے علما گذرے ہیں جنہوں نے درس و تدریس کے علاوہ سیکڑوں کتابیں لکھیں اس ور کشاپ میں سندھ بھر کے دینی مدارس سے فضلاء/علماءنے شرکت کی۔ ورکشاپ کی افتتاحی تقریب منعقد کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر نثار احمد سابق ڈین فیکلٹی آف آرٹس کراچی یونیورسٹی تھے۔
ورکشاپ میں جن موضوعات پرلیکچر ز کااہتمام کے گیا ان میں موجودہ دور میں فضلائے مدارس کی ذمہ داریاں ، اسلامی
تعلیمات اور بین الاقوامی تناظر میںخواتین کے حقوق ، پاکستان میں سیرت نگاری (ایک تعارفی جائزہ) ، اسلامی تعلیمات اور اقلیتوں کے حقوق ، درسِ نظامی (ایک تعارف) ، عصرِ حاضر کے تقاضے اور دینی مدارس کی ذمہ داریاں ، فن ِ تعلیم (ایک تعارف)، ابلاغ کی مہارت ، انسانی حقوق کا چارٹر اور اسلام انٹر فیتھ ڈائیلاگ اور بین المذاہب ہم آہنگی ،پاکستان میں رائج مختلف نظام ہائے تعلیم اور بین المسالک ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت نمایاں تھے۔
ورکشاپ کی اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی ملک کے نامور اسکالر اور ڈائریکٹر دعوة اکیڈمی پروفیسر ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمن صاحب نے اپنے خطاب میں موجودہ ورکشاپ کی کاوش کو وقت کی اہم ضرورت قراردیتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں علماءپربڑی اہم ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں اس لئے ضروری ہےکہ فضلاءاور علماءکو عصرِ حاضر لے چیلنجز سے نبردازما ہونے کےلئے تیار کرنا چاہئے تاکہ معاشرے میں علماءمثبت کردارادا کرسکیں انہوں نے مزید کہاکہ دعوة اکیڈمی آئندہ بھی اس طرح کے تربیتی پروگرامات کا انعقاد جاری رکھے گی تاکہ بین االمسالک ہم آہنگی اور یگانگت کو فروغ دیا جاسکے ۔ انہوں نے مزید کہا دینی مدارس پاکستان کی تعلیم کی شرح میں اضافے کے لئے بڑی خدمات سرانجام دے رہے ہیں،کیونکہ یہ ایسے ادارے ہیں جو کہ بغیر فیس کے علم کی روشنی پہلارہے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ علماءکو موجود ہ حالات کے درپیش چیلنجر کےلئے تیار رہنا چاہئے تاکہ دعوتِ دین اور اصلا ح معاشرہ کے اہم فرائض میں علماءکا کردار بہت اہم ہے۔تقریب کے آخر میں شرکاءمیں اسناد تقسیم کی گئیں جبکہ دعوہ اکیڈمی کی منتخب کتب کا ہدیہ دیا گیا ۔

محترم جناب نیوز ایڈیٹر
ٍ کوڑل ڈھراج
میڈیا کوآرڈینٹر


اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624


اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام ماہ رمضان کے حوالے سے محفل حمد نعت منعقد کی گئی جس کی صدارت پروفیسر خیال
آفاقی نے کی اور مہمان خصوصی پروفیسر سلطان مسعود ندیم تھے۔اس موقعے پرحیدر بخش ھکڑو نے اردو اور سندھی میں نعتیں
سنائیں جبکہ امتیاز چشتی ، سعدالدین سعد، عبدالکریم سومرو، عبدالمجید محور، اور دیگر شعراءکرام نے نعتیں رسول مقبول ﷺ
ترنم کے ساتھ پیش کیں۔ پروفیسر خیال آفاقی نے کہا نعت نگاری ادبی کاوش کے ساتھ ساتھ ایک فکری اور رحانی عمل بھی ہے
جس میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلموں نے بھی حضور کی عقیدت میں فن شاعری میں اظہار خیال کیا ہے۔ جبکہ مسلمان تو
اسے عبادت سمجھ کر لکھتے اور اظہار کرتے ہیں پروفیسر سلطان مسعود ندیم نے کہاکہ حضور کی شان میں شاعری دل سے نکلتی ہے
اس لئے دعائیہ اثر رکھتی ہے، آخر میں اکادمی ادبیات پاکستان صوبہ سندھ کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر نورمحمد پٹھان نے تمام سامعین
اور نعت خواہ شعرا کرام کا شکریہ ادا کیا۔


محترم جناب نیوز ایڈیٹر
ٍ کوڑل ڈھراج
میڈیا کوآرڈینٹر








اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624
ادبی اوطاق میں شاھ محمد مری کی آمد
ادیب اپنی تخلیقی کا وشوں کے ذریعے ذھن سازی کاکام سرانجام دے رہے ہیں ۔ یہ بات بلوچی زبان کے نامور محقق اور
ماہنامہ سنگت کے مدیر شاہ محمدمری نے اکادمی ادبیات پاکستان کے ماہانہ پروگرام ”ادبی اوطاق“ میں بحیثیت مہمان خاص
گفتگو کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ دور جدید میںمعاشی اور سماجی مشکلات اور مصائب کی وجہہ سے ایک شدید بے
چینی عدم تحفظ اور غیر یقینی کی فضا پیدا ہوگئی ہے لوگوں کے اس کرب اور درد والی کیفیت کو ایک ادیب ہی سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ لوگوںکے درمیاں ہی رہتا ہے۔سندھی ادبی سنگت کے مرکزی سیکریٹری یوسف سندھی نے کہاکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس
دور میں بھی پاکستان کے عوام کا ایک دوسرے کے مسائل سے بے خبر ہونا ایک بڑا المیہ ہے ضرورت اس امرکی ہے کہ صوبائی
ہم آہنگی کے لئے ادیبوں کے وفود کا صوبائی سطح پر تبادلہ جاری رکھاجائے جس طرح حال ہی میں اکادمی ادبیات پاکستان کے
زیراہتمام پنجاب ،سرحد اوربلوچستان اور سندھ کے ادیبوں کے وفود نے سندھ اور پنجاب کے صوبوں کے دورے کئے اس
سے چارو صوبوں کے ادیبوں کے باہمی ملاقاتوں سے فاصلے کم ہوئے ہیں اور محبتیں بڑھی ہی ہیں۔معروف نقاد نذیر چنہ نے اکادمی کی بین الصوبائی دوروں کے متعلق پالیسی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا بین الصوبائی دوروں کے ساتھ ساتھ صوبوں کے اندر بھی وفود کا تبادلہ کی ضرورت ہے انہوں نے کہا اس وقت ادب کے ذریعہ قومی یکجہتی کی فضا پروان چڑھانے کے لئے اکادمی اہم کردار ادا کررہی ہے اکادمی ادبیات صوبہ سندھ کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نورمحمدپٹھان نے کہا کہ موجودہ چیئرمین فخرزمان کی یہ ویزن تھی کہ انہوں نے آتے ہی پاکستان بھر کے ادیبوں کو پہلے اسلام آباد میںملایا پھر صوبائی سطح پر کانفرنسوں کے ذریعے ملنے ملانے کا اہتمام کیا اور حال ہی ماہ جون اور جولائی ۹۰۰۲ میں پنجاب ، سندھ سرحد اور بلوچستان کے ادیبوں کو انہوں نے سندھ اورپنجاب کا دورہ کرواکے ادیبوں کی باہمی تجربات کے تبادلہ اور ڈائلاگ کی فضا کو پروان چڑھایا ہے۔ اس موقعے پر فاطمہ حسن ، مجیدہ باریجو،اشفاق نابڑ ، چودھری نذیر، ظفرعلی ظفربلوچ،طارق خورشید، حیدربخش ھکڑو نے اظہا ر خیال کیا۔

محترم جناب نیوز ایڈیٹر
ٍ کوڑل ڈھراج
میڈیا کوآرڈینٹر


اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624
ادبی اوطاق میں شاھ محمد مری کی آمد
ادیب اپنی تخلیقی کا وشوں کے ذریعے ذھن سازی کاکام سرانجام دے رہے ہیں ۔ یہ بات بلوچی زبان کے نامور محقق اور
ماہنامہ سنگت کے مدیر شاہ محمدمری نے اکادمی ادبیات پاکستان کے ماہانہ پروگرام ”ادبی اوطاق“ میں بحیثیت مہمان خاص
گفتگو کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ دور جدید میںمعاشی اور سماجی مشکلات اور مصائب کی وجہہ سے ایک شدید بے
چینی عدم تحفظ اور غیر یقینی کی فضا پیدا ہوگئی ہے لوگوں کے اس کرب اور درد والی کیفیت کو ایک ادیب ہی سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ لوگوںکے درمیاں ہی رہتا ہے۔سندھی ادبی سنگت کے مرکزی سیکریٹری یوسف سندھی نے کہاکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس
دور میں بھی پاکستان کے عوام کا ایک دوسرے کے مسائل سے بے خبر ہونا ایک بڑا المیہ ہے ضرورت اس امرکی ہے کہ صوبائی
ہم آہنگی کے لئے ادیبوں کے وفود کا صوبائی سطح پر تبادلہ جاری رکھاجائے جس طرح حال ہی میں اکادمی ادبیات پاکستان کے
زیراہتمام پنجاب ،سرحد اوربلوچستان اور سندھ کے ادیبوں کے وفود نے سندھ اور پنجاب کے صوبوں کے دورے کئے اس
سے چارو صوبوں کے ادیبوں کے باہمی ملاقاتوں سے فاصلے کم ہوئے ہیں اور محبتیں بڑھی ہی ہیں۔معروف نقاد نذیر چنہ نے اکادمی کی بین الصوبائی دوروں کے متعلق پالیسی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا بین الصوبائی دوروں کے ساتھ ساتھ صوبوں کے اندر بھی وفود کا تبادلہ کی ضرورت ہے انہوں نے کہا اس وقت ادب کے ذریعہ قومی یکجہتی کی فضا پروان چڑھانے کے لئے اکادمی اہم کردار ادا کررہی ہے اکادمی ادبیات صوبہ سندھ کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نورمحمدپٹھان نے کہا کہ موجودہ چیئرمین فخرزمان کی یہ ویزن تھی کہ انہوں نے آتے ہی پاکستان بھر کے ادیبوں کو پہلے اسلام آباد میںملایا پھر صوبائی سطح پر کانفرنسوں کے ذریعے ملنے ملانے کا اہتمام کیا اور حال ہی ماہ جون اور جولائی ۹۰۰۲ میں پنجاب ، سندھ سرحد اور بلوچستان کے ادیبوں کو انہوں نے سندھ اورپنجاب کا دورہ کرواکے ادیبوں کی باہمی تجربات کے تبادلہ اور ڈائلاگ کی فضا کو پروان چڑھایا ہے۔ اس موقعے پر فاطمہ حسن ، مجیدہ باریجو،اشفاق نابڑ ، چودھری نذیر، ظفرعلی ظفربلوچ،طارق خورشید، حیدربخش ھکڑو نے اظہا ر خیال کیا۔

محترم جناب راشد نور
ٍ روزنامہ نوائے وقت کراچی کوڑل ڈھراج
میڈیا کوآرڈینٹر

اکادمی ادبیات پاکستان
PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS
Ministry of Education Govt. of Pakistan
80/A, Block-2 P.E.C.H.S
Karachi Pakistan
Ph:& Fax:021-4531588 پریس ریلیز
Cell: 0300-2161624
کراچی ۔ اردو کے مشہور معروف ادیب ڈاکٹر حنیف فوق کی وفات پر اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین فخرزمان نے
کہاکہ ڈاکٹر حنیف فوق پوری زندگی اپنے ملک پاکستان میں علم و ادب کی خدمت میں گذاری مرحوم کا شمار ترقی پسند دانشوروں
میں تھا ، وہ اپنی زندگی میں جامعہ کراچی میں شعبہ اردو کے چیئرمین اردو ڈکشنری بورڈ کے ڈائریکٹر اور ماہنامہ افکار کراچی کے
اداریہ نویس رہے آخر میں چئیرمین اکادمی نے مرحوم کے لئے دعا مغفرت کی اور لواحقین کو صبر کی تکلین کی ۔اس موقعہ پر
آغا نورمحمدپٹھان ریزیڈنٹ ڈائریکٹر اکادمی ادبیات پاکستان کراچی برانچ نے اپنے دفتر میں نعزیتی اجلاس طلب کیا اور مرحوم
ڈاکٹر حنیف فوق کے لئے مغفرت کی دعا کی اور ان کی علمی ادبی خدمات کو خراج تحسین بیش کی۔

محترم جناب راشد نور
ٍ روزنامہ نوائے وقت کراچی کوڑل ڈھراج
میڈیا کوآرڈینٹر