سندھ کے صوفی شعراء کا پیغام محبت

سندھ کے صوفی شعراء کا پیغام محبت

آج کی تضادات سے پر دنیا میں انسانذات ہیجان، انتشار اور تشدد کا شکار ہے اور رنگ و نسل، مذہب، ذات پات، فرقیواریت اور لسانی تعصبات کی بنیاد پر تقسیم ہوچکی ہے، حالات اسے نفرت، انتہا پسندی اور دہشتگردی کی طرف دھکیل رہے ہیں جسکی وجہ سے اس کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے- عام آدمی غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہے، حتیٰ کی دانشور اور اہل علم بھی مایوس اور قنوطیت پسند بن کر بے عمل اور غیر فعال ہوکر بیٹھ گئے ہیں- اس صورتحال نے عوام میں مایوسی اور بیزاری پیدا کردی ہے- ایسے حالات میں تلخ حقائق سے فرار حاصل کرنے کے لئے عموماً لوگ یا تو مذہب میں پناہ ڈھونڈتے ہیں یا کوئی اور فرار کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں، تاہم معروضی حقائق ایک تیسرا راستہ اختیار کرنےکا مطالبہ کرتے ہیں جو ہے صوفی ازم!

مذہب، جو انسان کو ذہنی و روحانی سکون اور احساسِ تحفظ دینے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اسے عصر حاضر میں اسکی روح سے جدا کر کے محض چند رسوم کی تقلید بنا دیا گیا ہے- مذہب کے ظاہری خدوخال پر زیادہ زور دینے کی وجہ سے مسالک کے درمیاں اختلاف کو فروغ حاصل ہوا ہے اس کے علاوہ ملائیت اور طالبانائیزیشن کے منفی اثرات کے نتیجے میں بھی لوگوں کے طبقات ان کی حمایت و مخالفت میں ظاہر ہوئے ہیں- ان وجوہات کی بناپر کئی نوجوان اور معاشرے کے تعلیم یافتہ افراد مذہب سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ دراصل ظاہری رسومات اور ارکانِ عبادت مذہب کا صرف ایک رخ ہیں۔ اس کا دوسرا اہم رُخ اور اصلی اور باطنی پہلو وہ فہم و ادراک ہے جو انسان کو اخلاقی اور روحانی طور پر بلندی عطا کرتا ہے اور اسے ناامیدی کے وقت دلی تسکین دیتا ہے- آج کے دور میں مذہب کا وہ جوہر کہیں گم کردیا گیا ہے، روایتی مذہبی اور ظاہر پرست افراد بھلے ہی اپنے عقیدےکو سب سے اعلیٰ سمجھتے ہوں، ان کی اپنی روحیں اس اصلی جوہر کو پانے سے محروم ہیں جس سے دل و دماغ منور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو رواداری، محبت اور امن کے عظیم پیغمبروں کے ماننے والے ہونے کا دعوہ تو کرتے ہیں مگر ان ہی عظیم شخصیات کے درس کے مطابق دوسروں کے عقیدوں کا احترام بھول جاتے ہیں، ان کو اس بات کا قطعی کوئی علم نہیں کہ ایک انسان اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے بھی دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ باہم اچھے تعلقات رکھ سکتا ہے۔

ایسے حالات میں رہنمائی کےلئے آخر کس کی طرف دیکھیں؟ کون ہے جو دینا کو پھر سے امن کا گہوارہ بنانے میں ہماری مدد کرسکتا ہے؟ ہمیں ضرورت ہے ایسے لوگوں کی جو تمام مذاہبِ عالم کے اندر موجود واحد ایسے جوہر میں یقین رکھتے ہوں، ایسے لوگ جو یہ سمجھیں کہ مذاہب اپنی ظاہری اشکال، رسمی اطوار، زبان و اصطلاحات میں تو فرق رکھتے ہیں مگر ان کے اندر انسانیت کی اصلاح اور فلاح کے تصور میں بہت زیادہ اختلاف نہیں ہوتا ایسے لوگ جن کا عقیدہ ہوکہ اپنے خالق کی نظر میں تمام انسان بغیر کسی تفریق کے برابر ہیں "صوفی" ہوتے ہیں، جو محبت، رواداری، برداشت کے حامل ہوتے ہیں، اور یہ تمام عالم انسان کی بھلائی چاہتے ہیں۔ ایک صوفی کا نظریہ کسی مذہب، عقیدے یا مسلک سے متصادم نہیں ہوتا بلکہ یہ ان تمام مذاہب اور عقائد کے جوہر سے آشنا لوگ ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کی ضرورت آج کے اس دور میں سب سے زیادہ ہے، جب لوگوں کے ذہن انتشار کا شکار ہیں اور معاشرہ اخلاقی و روحانی پستی کی طرف گامزن ہے- تصوف کی تعمیل کرنے کی اس لئے بھی ضرورت ہے کیونکہ یہ تفریق اور امتیاز کے خلاف ایک تحریک ہے جو مختلف ادوار میں صوفیائے کرام چلاتے رہے ہیں۔ تصوف ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور انہیں ایک ہی خالق حقیقی نے تخلیق کیا ہے، جو بلا تفریق سب سے یکسان محبت کرتا ہے، حقیقی صوفیوں کا مانناہے کہ جو ایک کا عقیدہ ہے وہ دوسرے کی نظر میں کمتر نہیں ہونا چاہئے اور ان کا پیغام یہ ہے کہ "تم جو اپنے لئے پسند نہیں کرتے وہ دوسروں کے لئے بھی پسند نہ کرو اور جو اپنے لئے چاہتے ہو وہ دوسروں کے لئے بھی چاہو"۔

Mysticism (تصوف) ایک وسیع اصطلاح ہے جو ایسے عقیدے کے لئے استعمال ہوتی ہے جو تمام مذاہب کے جوہر اور روح میں یقین رکھتا ہے مگر مختلف مذاہب کے لوگوں میں اس کے مختلف نام پائےجاتے ہیں۔ مثلاً کبالہ، بھگتی، موکشا اور صوفی ازم وغیرہ۔ اس کی تمام تشریحات ایک نکتے پر متفق ہیں کہ ہر مذہب کا ایک باطنی پہلو ہوتا ہے جس پر عمل کرکے انسان "خودشناسی" کے ذریعے "خدا شناسی" کی راہ اختیار کرسکتا ہے۔

برصغیر میں بہت بڑے اور عظیم صوفیائے کرام گذرے ہیں جنہوں نے اسلام کا ایک بہت ہی سہل اور خوبصورت تصور (Soft image) عام کیا اور ان کی ایسی تعلیمات کےنتیجے میں لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، خصوصاً وادیء سندھ میں صوفی تحریک اس سرزمین کی رواداری، محبت، اُخوت، باہمی اشتراک اور امن کی روایات سے ہم آہنگ ہوکر لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئی اور لوگوں کی فطرت کا حصہ بن گئی، اس بات کا آج بھی بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں کے لوگ اب بھی مزاجاً صوفی ہوتے ہیں- وادیء سندھ کے صوفیائے کرام نے اسلام کا ایک دوستانہ، برادرانہ، پرامن، برداشت اور رواداری کے عناصر رکھنے والا تصور عام کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے انسانوں کو عملی زندگی میں بھی فعال رہنے کا درس دیا۔ پنجاب میں فریدالدین گنج شکر اور داتا گنج بخش اور سندھ میں قلندر لعل شہباز اور عبدﷲ شاہ غازی ایسے صوفیائے کرام تھے، مگر جن لوگوں نے عوام الناس کو سب سے زیادہ متاثر کیا اور اپنا گرویدہ بنا لیا وہ تھے صوفی شعرا جنہوں نے لوگوں کی اپنی زبانوں میں شاعری کی اور اپنا امن و آشتی، پیار و محبت کا پیغام عام کیا۔ پنجاب میں مادھو لال حسین، بلھے شاہ اور سندھ میں شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست اورسامی نے اخوت، مساوات، محبت اور رواداری کے آفاقی پیغام دئے۔

سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف ظاہر پرست مولویوں اور پنڈتوں کے خلاف تھے جو لوگوں کو تعصب اور امتیاز کا سبق پڑھاتے تھے اور حق کی راہ سے ہٹ کر محض ظاہری رسوم ادا کرنے کو مذہب کا نام دیتے تھے۔ روز ہ، نماز اور دیگر عبادات تو کرتے تھے، لوگوں کو ان پر عمل کرنے کی تبلیغ بھی کرتے تھے مگر ان کے اندر موجود روح کو بھلا بیٹھتے تھے۔ شاہ صاحب نے فرمایا ہے کہ :

روزا نمازون اي پڻ چڱو ڪم،

او ڪو ٻيو فهم جنهن سان پسجي پرينءَ کي

ترجمہ: روزہ نماز قابل تحسین عمل ہیں مگر جو فہم اور دانش اپنے محبوبِ حقیقی کا قرب حاصل کرنے کی لئے ضروری ہے وہ کچھ اور ہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس خطہ زمین پر لوگ اپنے اپنے مذہب اور مسلک پر قائم رہتے ہوئے کبھی بھی انتہا پسند اور بنیاد پرست نہیں رہے نہ ہی انہوں نے عقیدے کےمعاملے میں کبھی جبر سے کام لیا۔ اور آج کے دور میں بھی اس بات کی اشد ضرورت ہے۔

شاہ لطیف کا پیغام اس قدر رواداری کی مثال ہے کہ وہ کہتے ہیں:

ڪوڙو تون ڪُفرسين ڪافر مَ ڪوٺاءِ

هندو هڏ مَ آهيين جڻيو تو نه جڳاءِ

تلڪ تنين کي لاءِ سچا جي شرڪ سين.

ترجمہ: اگر کوئی کافر اپنے کفر سے مخلص نہیں ہے تو اسے کافر کہلانے کا حق نہیں ہے- ایسے ہندو کو "جنیہ" پہننے کا حق بھی نہیں اور صرف ایسے لوگ تلک لگانے کے مجاز ہیں جو اپنے شرک سے سچے ہوں۔ اس طرح مسلمان کو بھی اپنے مسلک سے سچا اور مخلص رہنے کا درس دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے دیگر اعلیٰ انسانی اقدار کی بھی تبلیغ کی جن میں حب الوطنی، نصب العین کے حصول کے لئے جدوجہد، قربانی، مستقل مزاجی، پاکیزگی وغیرہ شامل ہیں۔

تتيءَ ٿڌيءَ ڪاهه، ڪانهي ويل ويهڻ جي،

متان ٿئي اونداه، پير نه لهين پرينءَ جو.

ترجمہ: موسم گرم ہو یا سرد، اپنا سفر جاری رکھو کیونکہ وقت بہت مختصر ہے، ایسا نہ ہوکہ اندھیرا ہوجائے اور تم محبوب کے نقشِ پا دیکھ نہ سکو!

جان جان هئي جيئري ورچي نه ويٺي،

وڃي ڀونءِ پيٺي، سڪندي کي سڄڻين.

ترجمہ: جب تک زندہ تھی اپنے مقصد کو پانے کی کوشش کرتی رہی، اپنے محبوب کے لئے ترستے ہوئے آخر کار موت کو گلے لگا لیا۔

آج کے دور میں صوفی ازم کو نئے سرے سے رواج میں لانے کی ضرورت تو ہے مگر، پچھلی چند صدیوں میں کچھ ایسی بدعتیں اوربرائیاں صوفی فلسفے کی نام سے رائج ہوگئی ہیں کہ پہلے ان کو اس نظام سے خارج کرنا ضروری ہے۔ آج "صوفی" لفظ کے معنیٰ بھی بدل گئے ہیں- بے عمل، کاہل اور منشیات کے عادی لوگ اپنے آپ کو صوفی کہتے ہیں، اس کے علاوہ پیری مریدی کےنام سے اصلی تعلیمات سے ہٹ کر توہم پرستی کو بڑھاوا دیا گیا ہے، آمرانہ اور نوآبادیاتی تسلط کے ادوار میں ایک ایسا نظام رفتہ رفتہ متعارف ہو چکا ہے جو صوفی ازم کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرنے کا باعث ہے اور لوگ مزاروں کے احاطوں میں پڑے رہنے کو صوفیوں کا راستہ سمجھنے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ صوفی بزرگان نے جو اپنے رب سے لؤ لگانے اور انسانوں سے محبت و اخوت کا پیغام دیا اسے بھول کر ان کی وفات کے بعد ان کے مزاروں کوعبادتگاہوں کا درجہ دیا گیا، ان کی اولادوں کو موروثی و خاندانی پیر قرار دیکر سجادہ نشینوں اور متولیوں کے روپ میں نذرانے دئے جانے لگے اورجب یہ کمائی کا ذریعہ بن گیا تو جعلی اور مصنوعی پیروں نے اسے کاروبار بنا لیا اور اپنی کرامات کے نام پر نرینہ اولاد اور مرادیں پوری کرنے والے پہنچے ہوئے بزرگ کا چولا پہن کر جادو، ٹوٹے، منشیات اور دیگر ایسی خرافات نکا عادی بناکر لوگوں کو معاشی اور معاشرتی سطح پر تباہ و برباد کرنا شروع کردیا۔

انگریزوں نے اور کئی مقامی حکمرانوں نے بھی اس نطام کو مزید مضبوط کیا۔ مورثی پیروں کے مال و ملکیت اور گدی کی ورا ثت سے متعلق آپس کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان میں سے بعض کو اپنے منظور نظر بنا کر سیاسی نظام کا حصہ بنا لیا، کیونکہ ان کے پیچھے ان کے ماننے والوں اور مریدوں کی فوج تھی جو کسی حکمران کی وفادار اور تابعدار رعایا کا کردار ادا کرسکتی تھی۔

صوفی ازم کےنام پر ایسی تمام بدعتوں، توہم پرستی اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال سے دامن بچاکر آج کے دور میں صوفی ازم کو اس کی اصلی روح کے ساتھ انسانوں کے درمیان بھائی چارے اور امن و آشتی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ صوفی کٹر پن، بنیادپرستی اور انتہاپسندی کے خلاف ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں جدید علوم نے روشن خیالی اور سکیولر سوچ کو عام کیا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانوں کے درمیاں ہر قسم کے امتیاز و تفریق سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور محبت اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے کلچر کو فروغ دیا جائے- آج دنیا میں اسلام کا جو منفی تصور عام کیا جا رہا ہے، خصوصاً مغرب میں مسلمانوں کو بنیاد پرست اور دہشت گرد سمجھا جا رہا ہےاس تاثر کو زائل کرنے کے لئے اسلام کا نرم تصور (Soft image)پھیلانے کی ضرورت ہے جس کا آسان ترین طریقہ ہے صوفی شعرائ کے کلام کو عام کرنا۔

سندھ کے صوفی شعرا ء کی بین الاقوامیت اور آفاقیت کی مثال اس شعر سے بہتر کوئی ہوہی نہیں سکتی:

سائينم سدائين ڪرين مٿي سنڌ سڪار

    دوست مٺا دلدار عالم سڀ آباد ڪرين (شاه)

ترجمہ: اے میرے سائیں میرے سندھ کو سدا خوشحال و سرسبز رکھنا- اے میرے محبوب رب تمام عالم کو بھی شاد و آباد رکھنا۔

اور سچل سرمست نے تو انسان کو انسان ہونے کے ناطے ہی عظیم سمجھا ہے نہ کہ کسی مذہب، مسلک، رنگ و نسل کی وجہ سے- کہتے ہیں:

انسان هيس انسان آهيان،

هندو مومن ناهيان،

جوئي، آهيان سوئي آهيان،

ڪو مومن چوي ڪو ڪافر چوي،

ڪو جاهل نالو ظاهر چوي،

ڪو شاعر چوي ڪو ساحر چوي،

آءٌ جوئي آهيان سوئي آهيان.

ترجمہ: انسان تھا انسان ہوں

ہندو مومن نہیں ہوں،

میں جو ہوں سو ہوں،

کوئی مومن کہے کوئی کافر کہے،

کوئی جاہل نام ظاہر کہےم

کوئی شاعر کہے کوئی ساحر کہے-

میں جو ہوں سو ہوں۔

ایک اور جگہ سچل سرمست کہتے ہیں:

مذهبن ملڪ ۾، ماڻهو منجهايا،

شيخي پيري بزرگيءَ، بيحد ڀلايا،

ڪي نمازون نوڙي پڙهن، ڪن مندر وسايا،

اوڏو ڪين آيا، عقل وارا عشق کي.

ترجمہ: عقائد و مسالک نے لوگ الجھائے

شیخی پیری بزرگی نے بے حد بھلائے

کوئی محض نماز پڑھے کوئی مندر بسائے

کیوں یہ عاقل عشق کے قریب نہ آئے۔

اور یوں صوفی دل کی صفائی پر ایمان رکھتے ہوئے تمام عالم انسان کی بھلائی اور بہتری کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور یہی آج ہماری ضرورت ہے۔